مختلف فیہا کی کوئی خاص شق، جو طالب کے اعتقاد میں جائز نہیں ۔ اور اس تقریر میں ضمناً حیثیت کا فائدہ بھی مذکور ہوگیا اب اس کے متعلق سب سوال حل ہوگئے ۔ سویہ تو طے ہوگیا کہ بعض امور ہی محل متابعت نہیں جن میں بعض میں تو متابعت واجب نہیں جیسے امور معاشیہ اور بعض میں جائزبھی نہیں خواہ ان کا عدم جواز متفق علیہ ہو جیسے معاصی ، خواہ مختلف فیہ ہو جیسے مسائل اختلافیہ جو طالب کے اعتقاد میں جائز نہیں ۔
اب یہ بات باقی رہی کہ جوامور محل متابعت نہیں ان میں اگر شیخ حکم دے تو اگر وہ شرعاً جائز اور طالب کی قدرت میں ہیں تو مروت کا مقتضا یہ ہے کہ ان میں متابعت کرے ، جیسے شیخ اپنا کوئی ذاتی کام یا کوئی خاص خدمت کرنے کی فرمایش کرے اور اگر وہ شرعاً ناجائز ہے خواہ وہ واقع میں بھی خواہ اس کے اعتقاد میں بھی، ادب سے عذر کردے اور اگر وہ اصرار کرے تو اس سے قطع تعلق کردے مگر گستاخی وایذاکا معاملہ کبھی نہ کرے۔
یہ تو اس وقت ہے جب وہ خلاف شرع کا حکم دے ، اور اگر طالب کو ایسا حکم نہ دے مگر خود کسی لغزش میں مبتلا ہو تو اگر اس میں تاویل کی گنجائش ہے تو تاویل کرے اور اس سے قطع تعلق نہ کرے۔ اور اگر تاویل کی گنجائش نہیں تو اس میں یہ تفصیل ہے کہ اگر احیاناً اس کا صدور ہوجاتا ہو تو بشریت واحتمال تو بہ پر محمول کرکے تعلق قطع نہ کرے ، اور اگر اصرار یعنی اعتیاد ہے تو اگر وہ صغیرہ ہے تو قطع تعلق نہ کردے،اور جو کبیرہ اور فسق وفجور یا ظلم وخیانت کے درجہ میں ہے تو تعلق قطع کردے۔ مگر ان سب حالات میں اس کے لئے دعائے صلاحیت کرتارہے کہ حقوق احسان میں سے ہے ۔ ارادہ تھا خلاصہ کو مختصر لکھنے کا ، مگر وہ اصل سے بھی زیادہ مبسوط ہوگیا۔ واللہ اعلم ۔
اس وقت بے ساختہ ذہن میں آیا کہ اس تحریر کا ایک لقب تجویز کردیا جائے الاعتدال فی متابعۃ الرجال۔ ۹شعبان ۵۲ھ