باب ۸
ولایت اور بزرگی کی حقیقت اور اس کی دو علامتیں
کاملین کے حالات عوام بلکہ مبتدیان اور متوسطان سلوک بھی نہیں سمجھ سکتے۔ آجکل تو کامل اس کو سمجھتے ہیں کہ جو نہ کھاتا ہو نہ پیتا ہو اور بیمار ہوتو دوانہ کرتاہو۔ حضرت جنیدؒ سے کسی نے پوچھا تھا ماالنہایہ؟ قال: العود الی البدایۃ یعنی نہایت سلوک (سلوک کی انتہا )کیا ہے ؟ فرمایا :کہ نہایت یہ ہے کہ سالک بدایۃ کی طرف رجوع کرے یعنی اس کے حالات اور عوام مومنین کی حالت میں کوئی فرق نہ رہے۔
پس جس کی یہ حالت ہو اور عوام سے اس کو اور کوئی امتیاز نہ رہے تو بھلا اس کو کون پہنچان سکتا ہے ۔ اسی واسطے انبیاء کی حالت عوام کے ساتھ ایسی مخلوط ہوتی ہے کہ کوئی ان کو پہنچان نہیں سکتا ۔ اسی واسطے بزرگوں نے کہا ہے کہ ولی کا پہچاننا آسان ہے اور نبی کی معرفت مشکل ہے ۔ اسی واسطے تو کفار نے کہا تھا کہ مَالِہٰذَا الرَّسُوْل یَا کُلُ الطَّعَامَ وَیَمْشِیْ فِی الْاَسْوَاق ، یعنی یہ رسول کیسا ہے کہ جو کھانا کھاتا ہے اور بازاروں میں چلتا پھرتا ہے ۔
بعض اولیاء اللہ ایسے ہوئے ہیں کہ برسوں ایک دانہ نہیں چکھا، عوام ایسے ہی لوگوں کو کامل سمجھتے ہیں ، مگر حضور صلی اللہ وعلیہ سلم سے بڑھ کرکون ہوگا آپ کھانا بھی کھاتے تھے اور بازاربھی تشریف لے جاتے تھے ۔ اور گھر کاکام اپنے ہاتھ سے کرلیتے تھے ۔
اور جس کو انبیاء کے ساتھ جس قدر تشابہ ہوگا اسی قدر وہ کامل ہوگا اور چونکہ یہ حالت عوام کی حالت کے ساتھ بظاہر ملی جلی ہوتی ہے اسی واسطے عام لوگ محققین کو درویش (اور بزرگ) نہیں سمجھتے ایسے لوگوں کو اتنا کہتے ہیں کہ صالح (نیک) اور متقی ہیں باقی درویشی (اوربزرگی) تو چیز ہی دوسری ہے ،درویشی اس کو کہتے ہیں کہ’’ ہوحق‘‘ بہت