تربیت السالک کی اہمیت اور حضرت تھانویؒ کے روحانی مطب کی خصوصیت
از مفکر اسلام حضرت مولانا سید ابوالحسن علی ندویؒ
راقم کے خیال میں دو علم ایسے ہیں جن کی تجدید ہر زمانہ میں اور ہر نسل کے لئے ضروری ہے وہ کبھی نئے تجربوں ، زمانہ اور ماحول کی رعایت ، طبیعتوں اور مزاجوں کے تعمیر کی دیکھ بھال اور لحاظ اور زندگی سے بار بار رشتہ قائم کرنے سے مستغنی نہیں ہوسکتے، ایک طب اجسام کا علم اور ایک طب قلوب کا علم یا دوسرے لفظوں میں ایک معالجہ جسمانی دوسرے معالجہ روحانی کا علم ۔۔۔۔۔۔
ان دونوں علوم میں ایک اور حقیقت مشترک ہے اور وہ یہ ہے کہ ان دونوں علوم میں اجتہاد سے چارہ نہیں ، ہر جسمانی معالج اور ماہر فن کو کسی نہ کسی درجہ میں اجتہاد سے کام لینا اور اپنے فن کی شاہراہ عام سے اور اس کے عام ضوابط وکلیات سے آزاد ہونا پڑتا ہے، اور بعض مرتبہ ’’ عام قانون‘‘ سے ہٹنے کا خطرہ تک مول لینا پڑتا ہے، اس کے بغیر وہ بعض مزمن امراض کا علاج اور بعض جاں بلب مریضوں کی مسیحائی کا فریضہ انجام نہیں دے سکتا، یہی حال اخلاقی وروحانی معالج کا ہے کہ وہ مقلد محض بن کر مختلف الطبائع اور متنوع اور مختلف المزاج مریضوں اور پیچیدہ امراض کا علاج نہیں کرسکتا اور اس کو بار بار اپنے فن اور اس کے پیشواؤں کی نپی تلی راہ سے اپنا اور اپنی خدا داد ذہانت اور اس فراست ایمانی سے جس میں بصیرت احسانی بھی شامل ہوگئی ہے ، نیا نسخہ تجویز کرنا اور نیا مرکب تیار کرنا پڑتا ہے ،وہ بعض اوقات اس فن کے مبتدیوں اور سطحی النظر لوگوں کو علاج بالمثل یا علاج بالسمیات نظر آتا ہے ، لیکن وہ ان مریضوں کے حق میں انوشدارَدْ اور آب حیات بن جاتا ہے ۔
’’ طب قلوب وارواح ‘‘یا ’’ فقہ باطن ‘’ یا تزکیہ واحسان کا یہ علم جس کو ہم مجبور اًتصوف