تصوف کے پورے ذخیرہ میں ایسی کتاب موجود نہیں
از: علامہ سید سلیمان ندویؒ
حضرت حکیم الامۃ مولانا اشرف علی رحمۃ اللہ علیہ کے علمی ودینی فیوض وبرکات اس قدر مختلف الانواع ہیں کہ ان سب کا احاطہ ایک مختصر سے مضمون میں نہیں ہوسکتا اور یہی ان کی جامعیت ہے جو ان کے اوصاف ومحامد میں سب سے اول نظر آتی ہے، وہ قرآن پاک کے مترجم ہیں ، مجود ہیں ، مفسر ہیں ، اس کے علوم وحکم کے شارح ہیں ، اس کے شکوک وشبہات کے جواب دینے والے ہیں ، وہ محدث ہیں ، احادیث کے
اسرار ونکات کے ظاہر کرنے والے ہیں ، وہ فقیہ ہیں ہزاروں فقہی مسائل کے جوابات لکھے ہیں ، نئے سوالوں کو حل کیا ہے نئی چیزوں کے متعلق انتہائی احتیاطوں کے ساتھ فتوے دیئے ہیں ۔ وہ خطیب تھے ، خطب ماثورہ کو یکجا کیا ہے، وہ واعظ تھے ان کے سینکڑوں وعظ چھپ کر عام ہوچکے ہیں ، وہ صوفی تھے ، تصوف کے اسرار وغوامض کو فاش کیا ہے، شریعت وطریقت کی ایک مدت کی جنگ کا خاتمہ کر کے دونوں کو ایک دوسرے سے ہم آغوش کیا ہے، ان کی مجلسوں میں علم ومعرفت اور دین وحکمت کے موتی بکھیرے جاتے تھے اور یہ موتی جن گنجینوں میں محفوظ ہیں وہ ملفوظات ہیں جن کی تعداد بیسیوں تک پہنچ چکی ہے وہ مرشد کا مل تھے ، ہزاروں مستر شد ومستفید ان کے سامنے اپنے احوال وواردات پیش کرتے تھے اور وہ ان کے تسکین بخش جوابات دیتے تھے اور ہدایات بتاتے تھے ۔ جن کا مجموعہ تربیۃ السالک ہے۔
یہ کہنا بے جا نہیں کہ علوم مکاشفہ ومعاملہ کے متعلق کلیات وجزئیات اور احوال شخصی پر ایسی حاوی کتاب کی نظیر تصوف کے سارے فتر میں موجو د نہیں ۱۲۷۲ صفحوں میں یہ کتاب تمام ہوئی ہے‘‘ ۔۱؎
------------------------------
۱؎ حکیم الامت کے آثار علمیہ ص ۱۸۱