ضمیمہ رسالہ الاعتدال فی متابعۃ الرجال
ایک اور صاحب نے تحریر فرمایاتعلیم الدین میں ایک مقام پر ہے کہ شیخ کے خلاف شرع افعال پر بھی نکتہ چینی نہ کرے اور اس کے استشھاد میں مثنوی سے حضرت موسیٰ وخضر علیہما السلام کا واقعہ نقل کیا گیا ہے مگر یہ خدشہ سے خالی نہیں اول تو اس لئے کہ حضرت خضرنے صاف صاف فرمادیا ہے کہ وَمَا فَعَلَتْہ‘ عَنْ اَمْرِی یہاں شیخ کے خلافِ شریعت فعل پر شیخ کے پاس کوئی سند نہیں ، دوم خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعض وہ افعال جو صحابہ ؓ کو قابل اعتراض معلوم ہوئے اس پر انہوں نے اعتراض کیا اور آپ نے نہایت خندہ پیشانی سے جواب دیا اور بعض وقت قبول فرمالیا مثلاً بدرمیں ابوحذیفہؓ کا یہ اعتراض کہ آپ نے اپنے بھائی اور چچا کے قتل کو منع کردیا اور ہمارے باپ بھائی کے قتل کا حکم فرمادیا اس لئے ہم تو ضرور آپ کے بھائی اور چچا کو بھی قتل کریں گے ۔ آپ نے فرمایا کہ تمہارے باپ بھائی تو خود باعث جنگ ہیں اور میرے بھائی اور چچا جبرواکراہ سے لائے گئے ہیں ۔ یا حضرت فاروق نے کلمہ لاالہٰ الاللہ کی بشارت کو قبل ازوقت بتایا اور آپ نے بھی قبول فرمالیا کہ دعہم یعملون غزوہ حنین میں بعض نوجوان انصارنے مولفہ قلوب کو زیادہ حصہ دینے پر اعتراض کیا تو آپ نے فرمایا کہ وہ لوگ اونٹ بکری اپنے گھر لے جائیں گے اور تم لوگ رسول اللہ کو اپنے گھر لے جاؤ گے، حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے افعال پر تویہ بھی کہا جاسکتا تھا کہ آپ کا ہر فعل شریعت ہے مگر اس پر بھی اسلام کے عدل ظاہری وتعلیم اعمال کے آپ کے جوافعال(خلاف عدل) معلوم ہوئے صحابہ نے اعتراض کیا اور آپ نے بلا نکیر جواب مرحمت فرمایا اور کوئی نص بھی اس قسم کے اعتراضات وسوالات کی مانع وارد نہیں ہوئی ۔ اگر وارد بھی ہوئی تو یہ وارد ہوئی کہ ’’ وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ وَتَوَاصَوْ ابِا لصَّبْرِ ‘‘ جس میں معلم ومتعلم کو یکساں تلقین حق کا اختیار دیا گیا ہے، میرے یہاں مسجد میں قبل عشا تعلیم الدین کا درس ہوتا ہے ا س میں مجھے خود یہ اشکال پیدا ہوا ہے۔