خطبہ تربیۃ السالک
از:حکیم الامت مولانا اشرف علی صاحب تھانوی رحمۃ اللہ علیہ
بعد الحمد والصلوٰۃ فقد قال اللّٰہ تعالیٰ وَلٰکِنْ کُوْ نُوْارَبَّانِیِّیْنَ الایہ وہو الذی یری الناس بصغا رالعلوم قبل کبارہا کما قال ابن عباس ؓ۔
یہ آیت بنا پر تفسیر مذکور تربیت دینیہ کو ملجاظ استعداد ماموربہ بتلارہی ہے ، جس کے مختلف ومتعدد شعبوں میں ایک خاص قسم تربیت کی علما وعملاًقریب قریب مفقود۱؎ ہورہی ہے ، اور وہ تربیت باطن کی ہے ۔ باعتبار مقامات واحوال وافعال وآثارو واردات۲؎ وخطرات کے۔ اور تجربہ ہے کہ بدون اس تربیت خاص کے اصلاح باطن کی نہیں ہوتی، اور جس کو بدون اس کے اصلاح سمجھا جاتا ہے وہ خود حالت غیر مقصود ہے۔ اور اس غلطی میں بکثرت مستفیدین۳؎ ومفیدین مبتلا ہیں ۔
الحمد للہ والمنتہ کہ شیخین جلیلین حضرت مولانا ومرشد نا الحافظ الحاج الشاہ محمد امداداللہ صاحب تھانوی ثم المکی، اور ان کے خلیفہ اعظم حضرت مولاناالحافظ الحاج رشید احمد صاحب گنگوہی قدس سرہما وعم برہما کی خدمات بابرکات کی حاضری وکثرت لزوم کی بدولت اس تربیت کے اصول صحیحہ جو گوش وہوش تک پہنچے وہ اپنے لئے بھی اور دوسرے طالبین کے لئے بھی غلطیوں سے نکالنے والے اور تشویش وکلفت سے بچانے والے اور امرحق تک پہونچانے والے اور شفا وجمعیت۴؎ کے بخشنے والے ثابت ہوئے اسلئے اپنا بھی دل چاہا اور بعض اکارم احباب نے بھی تحریک فرمائی کہ اس قسم کے جو خطوط آیا کریں اور ان کے جواب جایا کریں اگر وہ نقل کرلئے جایا کریں اور جب کچھ معتد بہ حصہ ہوجایا کرے وقتاً فوقتاً شایع کردئے جایا کریں ۔ تومبتلیٰ بہ ۵؎ کے لئے ایک نہایت بکارآمد دستورالعمل تیار ہوجاوے ۔ چنانچہ شوال ۱۳۲۹ھ سے اس کا سلسلہ شروع ہوتا
------------------------------
۱؎ ختم ۲؎ وساوس وخیالات ۳؎ فائدہ حاصل کرنے والے ۴؎ یکسوئی ۵؎ جو اس مرض میں مبتلا ہو