تو فرمائیے محض وظیفہ ا صلاح کے لئے کیسے کافی ہوگا ؟ یہ کام تو شیخ کا تھا ۔
اور مرید کا اصل کام ہے اتباع اور اتباع کی تکمیل کے لئے دوسراکام ہے شیخ کو حالات کی اطلاع ۔پس میں خلاصہ اور عطر تصوف کابتلائے دیتاہوں کہ اصل مقصود ہَویٰ ( یعنی خواہشات ) کو ہُدیٰ ( یعنی شریعت) کے تابع کرنا ہے ۔ اور یہ جب ہوگا کہ نفس سے ہویٰ نکل جائے ۔ یعنی ہوائے نفس (نفسانی خواہش) مغلوب ہوجائے ۔ اور یہ بات شیخ کے واسطے سے حاصل ہوجاتی ہے ۔ یہ خلاصہ ہے تصوف کاا ور یہ حاصل ہے اتباع شیخ کا ۔۱؎
تصوف کا حاصل یہ ہے کہ جس طاعت میں سستی ہوسستی کا مقابلہ کرکے اس طاعت کو کرلے اور جس گناہ کا تقاضا ہو تقاضا کا مقابلہ کرکے اس گناہ سے بچ جاوے، دیکھئے یہ ہے تو چھوٹی سی بات کہنے میں مگر وقوع میں کتنی عظیم الشان ہے ،شیخ کا بس یہی کام ہے کہ وہ اس بات کے حاصل کرنے کی تدبیریں بتلاتا ہے اور کچھ نہیں کرتا۔٭
شیخ کے حقوق کا خلاصہ
جب شیخ کامل مل جائے تو اس کے ……بہت سے حقوق ہیں جن کا حاصل یہ ہے کہ اس کاجی برانہ کرے اس کی کوشش کرے کہ اس کا دل میلانہ ہو یہاں تک کہ اگروہ ادب وتعظیم سے خوش ہو تو اس کی تعظیم کرے اور اگر تعظیم نہ کرنے سے خوش ہو تو تعظیم نہ کرے یہ نہ ہو کہ اپنی مرضی کے موافق عمل کرے اور شیخ کی مرضی کا اتباع نہ کرے۔۲؎
اگر شیخ معصیت کا حکم کرے
اگر شیخ معصیت کاحکم کرے تو ایسے شیخ ہی کو سلام کرے (یعنی چھوڑدے)ہاں اگر نوافل یا اور اد(وظائف)ترک کرائے تو ہر گزوسوسہ نہ لائے کیونکہ واجب تو ترک کراتا نہیں زیادہ سے زیادہ مستحبات ترک کراتا ہے۔(اور اس میں کوئی مصلحت ہوگی)۳؎
------------------------------
۱؎ الہویٰ والہدیٰ ملحقہ آداب انسانیت ص۵۴ ۲؎ انفاس عیسیٰ ص۵۱۱ ۳؎ حسن العزیز ص۲۷۱ج۲ ٭تکمیل الاعمال ملحقہ حقیقت تصوف وتقویٰ محلقہ۲۶۱