باب ۲
پورے تصوف کا حاصل اور خلاصہ
قرآن وحدیث کی روشنی میں
حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی صاحب تھانویؒ ارشادفرماتے ہیں :
دین کا پانچواں جز تصوف ہے، اس کو تولوگوں نے بالکل چھوڑ رکھا ہے ، اکثر لوگوں نے تصوف کے متعلق یہ سمجھ لیا ہے کہ یہ بہت ہی مشکل ہے کیونکہ اس میں بیوی بچوں کو چھوڑنا پڑتا ہے، یہ بالکل غلط ہے ۔
صاحبو! تصوف کی حقیقت ہے خدا تعالیٰ سے تعلق بڑھا نا ، سواس میں تعلقات ناجائز تو بے شک چھوڑنا پڑتے ہیں ۔ باقی تعلقات جائز ہ ضروریہ تو پہلے سے بھی بڑھ جاتے ہیں ، صوفیہ کے تعلقات اور معاملات بیوی بچوں کے ساتھ ایسے خوشگوار ہوتے ہیں کہ اہل تمدن کے بھی ویسے نہیں ہوتے ۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ یہ تصوف والے سنگ دل ہوجاتے ہیں حالانکہ وہ ایسے رحم دل ہوتے ہیں کہ انسان تو انسان جانوروں پر تک رحم کرتے ہیں ۔ چنانچہ ان حضرات کے پاس رہ کر معلوم ہوسکتا ہے کہ وہ ہر شخص کی راحت کا کس قدر خیال کرتے ہیں لہٰذا اس سے متوحش ہونا نادانی ہے جس کی وجہ سے اسلام کا ایک ضروری جز و لوگوں سے فوت ہورہا ہے، یہ جزو ایسا ضروری ہے کہ قرآن شریف میں اس کی تحصیل کا جابجا امر ہے حق تعالیٰ فرماتے ہیں :
یَأَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْ ااتَّقُوْااللّٰہَ حَقَّ تُقٰتِہٖ
’’ یعنی اے ایمان والو! حق تعالیٰ سے ڈرو جیسا کہ ڈرنے کا حق ہے‘‘