کے برابر نفع نہیں ہوسکتا ۔
جس کو شیخ میسر ہو وہ تو ایسا ہے جیسے طبیب سے علاج کرانے والا اور جس کو طبیب نہ ملے وہ خود کتابوں میں تدبیریں دیکھ کر ایسا علاج شروع کردے جس میں خطرہ نہ ہو ۔لیکن ایسا نفع تھوڑا ہی ہوگا۔۱؎
غرض شیخ اصلاح کی تدبیریں بتلاتا ہے اس سے زیادہ کچھ نہیں کرتا اور یہ تدبیریں تم خود بھی اپنے مطالعہ سے معلوم کرسکتے تھے مگر تمہارا معلوم کرنا ویسا ہی ہوگا جیسا کہ غیر طبیب طب (ڈاکٹری)کی کتابوں سے علاج کا طریقہ معلوم کرتا ہے اور دونوں کا فرق ظاہر ہے۔ اور ان مجموعی تدبیروں کا حاصل یہ ہے کہ پہلے تو علم شریعت حاصل کرے تاکہ افعال واخلاق کا بھلا اور براہونا معلوم ہوجائے پھر جو خواہش نفس کے اندر پیداہو اس کے مقتضیٰ پر عمل نہ کرے پس وہ یہ دو کام کرے ایک علوم کی تحصیل دوسرے مذموم (بری)خواہش نفس کی مخالفت مگر یہ لازم ہے کہ شیخ کی تلاش میں رہے ۔۲؎
شیخ ومریدکاکام اور ہر ایک کی ذمہ داری
اب کام کی تفصیل سنو!شیخ کے دوکام ہیں ایک ااصلاح ایک ذکر کی تعلیم اور ان میں بھی اصل کام اصلاح ہی کا ہے ۔ذکر اس کی اعانت وبرکت کے لئے ہوتا ہے ۔ باقی اصلاح کی حقیقت کیا ہے ؟ سووہ نفس کو ذمائم (برائیوں اور باطنی امراض) سے پاک کرنا ہے یعنی باطنی تربیت کرنا مگر اس کی اعانت کے لئے شیخ ذکر اللہ کی تعلیم کرتا ہے ۔ یوں تو آدمی اصلاح کی خود بھی تدبیر کرتا ہے مگر شیخ کی تعلیم میں غیبی برکت ہوتی ہے باقی نرا وظیفہ بغیر اصلاح کے بالکل کافی نہیں …اس خیال کی بھی اصلاح ضروری ہے ۔بہت لوگ اس غلطی میں مبتلا ہیں کہ محض وظیفہ ہی اصلاح کے لئے کافی ہے حالانکہ اصلاح کی حقیقت ہے (مذموم) خواہش کا نفس سے نکالنا اگر ہویٰ ( مذموم خواہش) نفس کے اندر ہی ہے
------------------------------
۱؎ الافاضات الیومیہ ص۵۱ج ۱ ۲؎ الہویٰ والہدیٰ ملحقہ آداب انسانیت ص۷۴