خلاصہ کلام
اگرشیخ تم کو کسی ایسی بات کا امر کرے جو تمہارے خیال میں بظاہر خلاف شرع ہے مگر اس کا خلاف شرع ہونا منصوص نہیں نہ مصرح ہے بلکہ اس میں اجتہاد کی گنجائش ہے اور شیخ کا مل متبع شریعت ہے تو ایسے اجتہادی مسائل میں بات بات پر شیخ سے بدظن نہ ہو بلکہ یوں سمجھو کہ گوہم کو یہ امر خلاف شرع معلوم ہوتا ہے مگر شیخ خود بھی تو محقق اور متبع شریعت ہے اس کی فہم ہماری فہم سے عالی ہے اور مسئلہ اجتہادی ہے منصوص نہیں تو ممکن ہے اس کے نزدیک شرعاً اس میں گنجائش ہو مگریہ صورت وہاں ہوسکتی ہے جہاں پہلے شیخ کا محقق ومتبع شریعت ہونا تجربہ اور جانچ سے اچھی طرح معلوم ہوچکا ہو۔
اسی لئے اہل طریق کی وصیت ہے کہ اول طلبِ شیخ میں پوری احتیاط لازم ہے پھر جب تفتیش وتجربہ سے اس کا متبع شریعت ومحقق ہونا ثابت ہوگیا تو اب اجتہادی مسائل میں بات بات پر اس سے بدظن نہ ہو۔
البتہ اگر بیعت کے بعد اس سے کوئی ایسی بات دیکھی جائے جو کہ صراحۃً خلاف شرع ہو، جس میں اجتہاد کی بالکل مجال نہ ہو تو اس کے متعلق تین قسم کا معاملہ کرنے والے لوگ ہیں ، بعض تو اس کو چھوڑدیتے ہیں اور یہ خلاف اصولِ طریقت ہے اور بعض اس کے فعل میں بھی تاویل کرلیتے ہیں اور اگر وہ ان کو بھی اس فعل کا امرکرے تواس کا ارتکاب بھی کرلیتے ہیں اور یہ خلاف طریقت بھی ہے اور خلاف شریعت بھی۔
اور سب میں اچھا تیسری قسم کا معاملہ کرنے والا شخص ہے وہ یہ کہ اگراس کو امر نہ کرے تو بدظن نہ ہو اوراس کے فعل میں یقینا یا ابہاماًتاویل کرلے اور اگر تاویل پر قدرت نہ ہوتو سمجھ لے کہ شیخ کے لئے عصمت لازم نہیں آخروہ بھی بشر ہے اور بشر سے کبھی غلطی ہوجانا ممکن ہے اور اگر اس کو بھی امر کرے تو اتباع نہ کرے بلکہ ادب سے عذر کردے اگر وہ اس عذر کو قبول کرلے اور پھر اس کو مجبورنہ کرے تو اس شیخ کو نہ چھوڑے اور اگر وہ اس عذر پر