ہوں ۔ یہ اتباع نہ عقائدمیں ہے نہ کشفیات ہیں نہ جمیع مسائل میں نہ ا مورمعاشیہ میں ،
صرف طرق تربیت وتشخیص امراض وتجویز تدابیر، اور ان مسائل میں ہے جن کا تعلق اصلاح تربیت باطنی سے ہے وہ بھی اس وقت تک جب تک کہ ان کا جو از مرید وشیخ کے درمیان متفق علیہ ہو۔
اور اگر اختلاف ہو تو شیخ سے مناظرہ کر نا خلاف طریق ہے ۔ اور امتثال امر خلاف شریعت ہے۲؎ ایسی صورت میں ادب جامع بین الادبین ۲؎یہ ہے کہ علماء سے استفتاء کر کے ، یا اپنی تحقیق سے حکم متعین کر کے شیخ کو اطلاع کرے کہ میں فلان عمل کو جائزنہیں سمجھتا اور ہمارے سلسلہ میں اس کی تعلیم ہے ، مجھ کو کیا کرنا چاہئے ۔ اس پر اگر شیخ پھر بھی وہی حکم دے تو اس شیخ کو چھوڑ دینا چاہئے اور اگروہ ترک کی اجازت دے تو یہ بھی اس کی متابعت ہے ۔ یہ معنی ہیں اتباع کامل کے یعنی جو مرض نفسانی اس نے تجویز کیا ہو، یا جو تدبیراس نے تجویز کی ہو، یا جو عمل مشروع جس کا مشروع ہونا شیخ ومریدمیں متفق علیہ ہو ، تجویز کیا ہو ان چیزوں میں اتباع کامل کرے ، ذرا بھی اپنی رائے کو دخل نہ دے اور باقی امور میں اتباع مراد نہیں ۔ امید ہے کہ سب شبہات کا جواب ہوگیا ہوگا ۔ اگر کوئی جزوباقی ہوتوتعیین وتصریح کے ساتھ تحریر فرمائیے۔
خلاصہ مبحث کا اس باب میں یہ ہے کہ اتباع کا محل معلوم نہ ہونے سے یہ سب شبہات پیدا ہوئے ۔ میں اس کا محل وقیود وحیثیت متعین کئے دیتاہوں ۔ سو محل تو اس کا صرف شیخ کی تعلیمات قولیہ میں جن کا تعلق تربیت واصلاح باطن سے ہے اور قید اس کی یہ ہے کہ وہ فعل جس کی تعلیم کی جارہی ہے ، شرعاً جائز ہو جس کا جواز طالب کے
------------------------------
۲؎ مختلف فیہ ہونے کے معنی ہی ہیں کہ شیخ تو اسے جائز سمجھ رہا ہے اور مرید اپنی بصیرت کے موافق شرعاً ناجائز۔ ایسی صورت میں مولانا فرماتے ہیں کہ شیخ سے مناظرہ کرنا تو خلاف آداب طریقت ہے اور اپنی ذہانت کے خلاف شیخ کااتباع کرلینا ایک فعل ناجائز کا، خلاف شریعت کا ارتکاب کرنا ہے (سچ)
۳؎ یعنی آداب طریقت واحترام شریعت (سچ)