اور بعضے متعلق باطن کے ہیں جیسے خدا کی مشیت ۱؎پر راضی رہنا۔ حرص نہ کرنا ۔ عبادت میں دل کا حاضر رکھنا،دین کے کاموں کو اخلاص سے کرنا۔ کسی کو حقیر نہ سمجھنا۔ خودپسندی۲؎نہ ہونا۔ غصہ کو ضبط کرنا وغیرہ ان اخلاق کو سلوک کہتے ہیں ۔ اور مثل احکام ظاہری کے ان احکام باطنی پر عمل کرنا بھی فرض وواجب ہے۔ نیز ان باطنی خرابیوں سے اکثر ظاہری اعمال میں بھی خرابی آجاتی ہے ۔ جیسے قلتِ محبتِ حق۳؎ سے نماز میں سستی ہوگئی یا جلدی جلدی بلا تعدیل ارکان پڑھ لی۔ یا بخل سے زکوٰۃ اور حج کی ہمت نہ ہوئی ۔ یا کبروغلبہ غضب سے کسی پر ظلم ہوگیا۔ حقوق تلف ہوگئے ۔ ومثل ذلک۔ اور اگر ان ظاہری اعمال میں احتیاط کی بھی جاوے تب بھی جب تک نفس کی اصلاح نہیں ہوتی وہ احتیاط چند روز سے زیادہ نہیں چلتی ۔ پس نفس کی اصلاح ان دوسبب سے ضروری ٹھیری۔
شیخ کی ضرورت
لیکن یہ باطنی خرابیاں ذرا سمجھ میں کم آتی ہیں اور جو سمجھ میں آتی ہیں ان کی درستی کا طریقہ کم معلوم ہوتا ہے ۔اور جو معلوم ہوتا ہے نفس کی کشاکشی۴؎سے اس پر عمل مشکل ہوتاہے ۔ ان ضرورتوں سے پیر کامل کو تجویزکیا جاتا ہے کہ وہ ان باتوں کو سمجھ کر آگاہ کرتاہے اور ان کا علاج وتدبیر بھی بتلاتاہے۔ اور نفس کے اندر درستی کی استعداد اور ان معالجات میں سہولت اور تدبیرات میں قوت پیدا ہونے کیلئے کچھ اذکار واشغال کی بھی تعلیم کرتا ہے ۔ اور خود ذکر اپنی ذات میں بھی عبادت ہے ۔
پس سالک کودوکام کرنے پڑتے ہیں ، ایک ضروری کہ احکام شرعیہ ظاہری وباطنی کی پابندی ہے۔ دوسرا مستحب کہ کثرت ذکر ہے ۔ اس پابندی احکام سے خدائے تعالیٰ کی رضا اور کثرتِ ذکر سے زیادتِ رضا وقرب حاصل ہوتا ہے ۔ یہ ہے خلاصہ سلوک کے طریق اور مقصود کا۵؎۔
------------------------------
۱؎ مرضی اور فیصلہ ۲؎ اپنے کو اور اپنی ہر چیز ورائے کو اچھا سمجھنا۳؎ حق تعالیٰ کی محبت کی کمی
۴ ؎ کھینچا تانی ۵؎ تربیت السالک ص۷،۸