حضرت اقدس تھانویؒ کا جواب
تعلیم الدین کی پوری عبارت میں خود جواب ہے اور استدلال نقلی تبرع ہے جس میں وجہ جامع یہ ہے کہ اس قصہ میں ترک سوال کی شرط ٹھہرگئی تھی اور شیخ وطالب میں بھی دلالۃ یہی شرط ہوتی ہے ’’ کما سیتضح من مثال المریض والطبیب ‘‘ ورنہ مسئلہ عقلی ہے ، شیخ وطالب کا تعلق معالج ومریض کا ساہے اس کے نسخہ پر یا اس کی بدپرہیزی پر اعتراض کااثر طبعی دیکھ لیا جاوے کیا ہے؟ قطع تعلق معالجہ ۔ اگر معالج پر شبہ ہواس کا ترک جائز ہے ، اعتراض جائز نہیں ۔ اور واقعات نبویہ پر قیاس صحیح نہیں کیونکہ وہاں ترک وتبدیل جائز نہ تھی اس لئے سب شبہات وہاں ہی پیش کئے جاتے تھے اور یہی جواب ہے نکیر علیٰ الخلفاء کا کہ ان کا ترک بھی جائز نہ تھا اگر ان سے شبہات رفع نہ کریں تو کیا کریں ۔ اتنا فرق ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے صرف استفسار ہوتا تھا گوکبھی بصورت مشورہ ہوکبھی بصورت شبہ ۔ اور خلفاء پر نکیر بھی ہوتا تھا کیونکہ اگر نکیر نہ کریں اور ان کی اصلاح نہ ہوتو فساد عظیم برپا ہوجس کا ضررسائل تک بھی متعدی ہوتا ہے ، بہرحال وہاں یہ ضرورت تھی اور شیوخ کاترک وتبدیل سب جائز ہے اس لئے ان کو مکدر کرنا ایسا ہے جیسے معالج کو مکدر کرنا یہ فرق بہت ہی موٹا ہے اس سے سب سوالات کا جواب ہوگیا۔ ۱؎
معمولات وعادات میں شیخ کی اتباع کرنے کا حکم
حال: اور شیخ کی وہ عادتیں جو طبعی ہیں اس میں اگر مرید اتباع کرے تو باعث اجر ہے یا نہیں ۔
تحقیق: اجر کی کوئی وجہ نہیں ۔
------------------------------
۱؎ تربیت السالک ص ۳۴ج۳النور شعبان رمضان ۱۳۵۲ھ