متقدمین ومتاخرین میں ایسی نظیر ملنا مشکل ہے
از مولانا پیر ذوالفقار احمد اصاحب نقشبندی
یوں تو چشم فلک نے بڑی بڑی عالم فاضل ہستیاں ، بڑے بڑے عابد اور زاہد انسان اور بڑے بڑے متقی وتہجد گزار بندے اس خطہ ارضی میں دیکھے ہوں گے مگر شریعت وطریقت کا ایسا حسین امتزاج شائد ہی کسی نے دیکھا ہو جیسے کہ آپ (حکیم الامت مجدد ملت حضرت مولانا اشرف علی صاحب تھانویؒ)تھے ۔ کوئی صرف عالم ہوتا ہے اور طریقت سے کورا ، کوئی محض صوفی ہوتا ہے اور علوم شرعیہ سے ناآشنا۔ حضرت حکیم الامت ایک ہی وقت میں صوفی بھی تھے ، عالم بے بدل بھی ، رومی عصر بھی تھے اور رازیٔ وقت بھی ۔ آپ نے جس طرح شریعت ظاہرہ کو جہالت وضلالت کی تاریکیوں سے نکالنے کاکام کیا اسی طرح طریقت باطنہ کو بھی افراط وتفریط کی بھول بھلیوں سے نجات دلائی ۔ دراصل حضرت تھانویؒ قدس سرہ‘ کے یہاں طریقت کا خلاصہ یہ تھا کہ انسان بنو اور آدمیت سیکھو، چنانچہ آپ فرماتے تھے بھائی میں اپنی محفل کو بزرگوں کی محفل نہیں بنانا چاہتا، آدمیوں کی محفل بنانا چاہتا ہوں ۔اللہ تعالیٰ نے حضرت تھانویؒ کو دور حاضر کے مجدد کے منصب پر فائز فرمایا تھا اس لئے حضرت تھانوی نے مسلمانوں کے ہر شعبہ زندگی میں بڑھتے ہوئے انحطاط کو دیکھ کر سینکڑوں ہزاروں میل کا سفر طے کرکے اپنے مواعظ حسنہ ملفوظات اور عام مجالس کے ذریعے لوگوں کو اپنی اصلاح کی طرف متوجہ کیا وہاں آپ نے اپنی عظیم تصنیفات کے ذریعے عوام وخواص کی رہبری فرمائی اور ان کو صحیح دین سے آشنا کیا۔ نشر واشاعت کے اس دور میں حضرت تھانویؒ کا یہ ایک عظیم اور امتیازی کارنامہ ہے کہ ڈیڑھ ہزار سے زائد تصانیف آپ کے قلم سے رقم ہوئیں ۔ ہر علم وفن پر تصانیف اس قدر تالیف فرمائیں کہ بلا مبالغہ کہا جاسکتا ہے کہ متقدمین ومتاخرین میں اس کی نظیر ملنا مشکل ہے ۔ (خطبات فقیر ص۲۵۷ج۷)