شیخ سے علاج کرانے اور اجازت لینے کا طریقہ
حال: میں نے پہلے عریضہ میں دلائل الخیرات اور ربنا آتنا الخ کے پڑھنے کی اجازت کے واسطے عرض کیا تھا صرف مقصود میرا یہ ہے کہ میری آخرت درست ہوجائے۔ بزرگوں کے ارشاد کے موافق جو کام کیا جاتا ہے اس میں اللہ تعالیٰ برکت فرماتے ہیں ۔میں پڑھتا برابر رہتا ہوں کہ جو ثواب سے خالی نہیں ہے ۔ لیکن ایک خود کسی نسخہ کو استعمال کرنا اور ایک حکیم کے فرمان کے بموجب اس پر عمل کرنا اس میں بہت بڑا فرق ہے۔
تحقیق: جو مصلحت آپ نے اجازت مانگنے میں لکھی ہے وہ ٹھیک ہے ،مگر اس کا یہ طریق نہیں جو آپ نے تجویز کیا کہ نسخہ خود تجویز کیا اور طبیب سے اجازت مانگی جاتی ہے ،بلکہ طریق اس کا یہ ہے کہ اپنی پوری حالت کسی معتقدفیہ۱؎ کے سامنے پیش کر کے اپنے کو اس کی تفویض۲؎ میں دیدیا جائے ۔ جو نسخہ میرے لئے تجویز کیا جاویگا میں اس کا استعمال کروں گا ۔ چونکہ ایسے مضمون کا آپ کا کوئی خط نہیں آیا لہذا میں کوئی متعین مشورہ نہیں دے سکتا ہوں ،جب ایسا خط آئے گا انشاء اللہ مشورہ عرض کروں گا۔۳؎
متعلقین پر عتاب کرنا مقتدیٰ کا منصب ہے
حال: احقر بفضل خداہنوز۱؎اپنے وظیفہ میں سرگرم ہے ۔ لیکن میرا حال مختلف قسم کا رہتا ہے کیا ہوجاتا ہے کہ اہل مکان کو شرع کے خلاف چلنے سے ان پر غضب ناک ہوجاتا ہوں تحمل۳؎ نہیں کرسکتا، یہاں تک کہ ایسی نوبت پہونچی کہ مکان والے سب مجھ پر خفا وناراض ہوئے ، حضرت والد صاحب بھی دلگیر ہیں ، بلکہ مجھ کو دیوانہ سمجھ رکھا ہے ۔ اور درحقیقت حال بھی دیوانوں کی طرح ہی ہوجاتا ہے ۔ گاؤں میں بھی
------------------------------
۱؎ جس سے اعتقاد ہو ۲؎ یعنی پورے طورپر اس کے حوالہ کردیاجائے ۳؎ الامداد بابت ذیقعدہ ۳۵ھ تربیت السالک ص۵۸