مرید سے خفا ہوجائے تو سمجھ لے کہ یہ شیخ کامل نہیں اس کو چھوڑکردوسرے کے یہاں چلاجائے اوراس دوسرے سے جاکر صاف کہہ دے کہ میں پہلے وہاں بیعت تھا اورا س وجہ سے الگ ہوا اگر وہ بھی یہ سن کر ناخوش ہو تو اس کو بھی چھوڑدے اور اگر ناخوش نہ ہو تو اس سے تعلق پیدا کرے مگر اس حالت میں بھی پہلے شیخ کے ساتھ گستاخی نہ کرے کیونکہ اس طریق کا مدارادب پر ہے۔اور جب اس کو پہلے شیخ سے تعلق رہ چکا ہے اور اس کو طریق کا وسیلہ بنا چکا ہے تو طریق کا ادب یہ ہے کہ اس کے ادب کا ہمیشہ لحاظ رکھے۔
اور اگر کوئی شیخ اس کو قبول نہ کرے یااور کوئی شیخ ہی نہ ملے تو اب اس کو چاہئے کہ قرابادین طریق(یعنی تصوف کی معتبر کتابوں ) کا مطالعہ کرے جیسے اکسیر ہدایت اور احیاء العلوم وغیرہ وغیرہ اور بزرگان سلف کے تذکرے اور ملفوظات کا مطالعہ کرے اور ان کو دیکھ کر عمل شروع کرے انشاء اللہ تعالیٰ محروم نہ رہے گا۔۱؎
مولانا عبدالماجد صاحب کا خط اورحضرت تھانویؒ کا جواب
مضمون: ’’ گرامی نامہ مسئلہ اتباع شیخ پر تو اس قدر شافی اور اتنا جامع موصول ہوا کہ میں تو پڑھ کر اچھل پڑا ، دل بے اختیار یہ چاہتا تھا کہ سامنے ہوتا تو لکھنے والے کی انگلیاں اپنے ہونٹوں اور آنکھوں سے لگاتا۔ سبحان اللہ۔ ذالک فضل اللہ یوتیہ من یشاء گوساتھ ہی یہ خیال کرکے ندامت بھی ہوئی کہ میرے باعث اتنا طویل مضمون لکھنے کا تعب برداشت کرنا پڑا۔
جواب: مجھ کو تو آپ کی خوشی سے خوشی ہوئی ۔ رہا تعب، اول تو ہوا نہیں ، پھر بہ ضرورت دینیہ ہوا۔ پھر آپ نے بدلہ تو کردیا کیونکہ اچھلنے سے بھی تعب ہوتا ہے۔
مضمون: اس تشریح وتوضیح کے بعد اب نفس مسئلہ تو صاف ہوگیا ۔ اب سوال صرف تعامل کا رہا عمل اس کے مطابق کیوں نہیں ہوتا ۔ جہاں تک دیکھا اور سنا عمل
------------------------------
۱؎ ارضاء الحق ملحقہ تسلیم ورضا ص۶۱،۶۲