اس میں تکمیل تقویٰ کا امر ہے، یہی تصوف کا حاصل ہے ، اور مشاہدہ ہے کہ ایسا ڈرنا سوائے صوفیہ کرام اہل اللہ کے کسی کو بھی نصیب نہیں ہے۔ ان کی بات بات میں خشیت ہوتی ہے، بیباکی اور آزادی کہیں نام کو بھی نہیں ہوتی۔
اب حدیث میں اس کی تاکید لیجئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں :
اِنَّ فِیْ جَسَدِ ابْنِ اٰدَمَ مُضْغَۃً اِذَا صَلُحَتْ صَلُحَ الْجَسَدُ کُلُّہ‘ وَاِذَا فَسَدْتَ فَسَدَ الْجَسَدُ کُلُّہ‘ أَلاَ وَہِیَ ألْقَلْبِ ۔(مشلم شریف ص۸۳ج۲)
یعنی انسان کے بدن میں ایک ٹکڑا ہے جب وہ درست ہوجاتا ہے تمام بدن درست ہوجاتا ہے اور جب وہ بگڑتا ہے تو تمام بدن بگڑجاتا ہے ، سن لو وہ دل ہے اس میں اصلاح قلب کی کتنی تاکید ہے کہ اسی کو مدار اصلاح قرار دیا گیا ہے اور یہی تصوف کا حاصل ہے اس میں بھی اصلاح قلب کا اہتمام ہوتا ہے۔
ایک اور حدیث میں ہے ( جو حدیث جبرئیل کے نام سے مشہور ہے) کہ ایک دفعہ حضرت جبرئیل علیہ السلام بصورت انسان حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت مبارک میں حاضرہوئے اور صحابہ کی تعلیم کے لئے انہوں نے حضور سے چند سوالات کئے جن میں پہلا سوال یہ تھا
یامحمد أخبرنی عن ائلاسلام
اے حضور! مجھے بتلائیے کہ اسلام کی حقیقت کیا ہے؟
قال الاسلام أن تشہد أن لا الٰہ الا اللہ وأن محمد ارسول اللہ وتقیم الصلوٰۃ وتوتی الزکوٰۃ وتصوم رمضان وتحج البیت ان استطعت الیہ سبیلا
آپ نے فرمایا کہ اسلام یہ ہے کہ اللہ کے لاشریک لہ ہونے کی اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے رسول اللہ ہونے کی گواہی دو اور نماز کی پابندی کرو اور زکوٰۃ ادا کرو اور رمضان کے روزے رکھو اور بیت اللہ کا حج کرو اگر وہاں تک پہنچنے کی استطاعت ہو۔