ہے اور آئندہ بھی ضرورت بڑھتی جاے گی،کیونکہ عوام وخواص سب ہی اس کی حقیقت سے ناواقف ہیں اس لئے اس فن کے احیاء اور اس کو منظر عام پر لانے کی خصوصاً تربیت السالک کے مضامین کو جدید انداز میں آسان ترتیب وعنوانات کے ساتھ مختلف رسائل کی شکل میں لانے کی اس وقت شدید ضرورت ہے۔
اورواقعہ بھی یہی ہے جیسا کہ حضرت تھانویؒ نے تحریر مایا ہے کہ تصوف کے متعلق لوگ مختلف قسم کی غلط فہمیوں اور افراط وتفریط میں مبتلا تھے ، ناواقفوں اور نام نہاد مشائخ نے محض اپنی دکان چمکانے کے لئے طرح طرح کے جال پھیلا رکھے تھے ۔لوگ جن کا شکار ہوتے جاتے تھے اور اس صورتحال کو دیکھ کر ایک طبقہ نفس تصوف وتزکیہ نفس ہی کو غیر ضروری سمجھنے لگا تھا ،بلکہ اس سے بیزار اور بدگمان ہوچکا تھا۔ٹھیک یہی صورتحال آج بھی ہورہی ہے ۔ ایک بڑے طبقہ نے تصوف واصلاح نفس کا حاصل( اصلاح اخلاق ومعاملات سے قطع نظر) صرف چند تسبیحات واوراد اور مراقبات و معمولات کے پورا کرلینے کو سمجھ لیا ہے ۔ وہ اپنے مریدین ومتعلقین کو بھی بس اسی کی ترغیب دیتے ہیں ۔ اور ان معمولات واوراد کے پورا کرلینے کو ہی کامیابی کا معیار سمجھتے ہیں حتیٰ کہ بہتوں کو سند کا میابی سے بھی سرفراز فرمادیتے ہیں گو اس کی ظاہری وضع قطع اور شکل صورت بھی خلاف شرع ہو اور گووہ کتنے ہی باطنی رذائل میں مبتلا اور صفائی معاملات واخلاق فاضلہ سے کوسوں دور ہو۔
اس لئے شدید ضرورت محسوس ہورہی تھی کہ اللہ تبار ک وتعالیٰ نے حکیم الامت حضرت تھانویؒ جو اصلاحی وتجدیدی کام لیا ہے جو آپ کے صدہا ملفوظات ومواعظ اور تصانیف میں منتشر ہے اس کے اقتباسات مختلف رسائل اور مضامین کی شکل میں مرتب کرکے شائع کئے جائیں ۔ خود حکیم الامت حضرت تھانویؒ کوبھی اس ضرورت کا احساس اور آپ کی خواہش تھی چنانچہ حضرت علامہ سید سلیمان ندوی ؒ کو آپ نے بالکل آخری