حکیم الامت مجدد الملت حضرت مولانا اشر ف علی تھانویؒ سے اللہ رب العالمین نے فن سلوک وتصوف(تزکیہ نفس) کے متعلق جو تجدیدی خدمت لی ہے اور اس سلسلہ میں آپ نے جو اصلاحات، ضروری تعلیمات اور اہم ہدایات وتنبیہات فرمائی ہیں جو ان کے صدہا ملفوظات ومواعظ میں منتشر ہیں وہ سب یکجا اور مرتب کردی جائیں تاکہ اس فن کا احیاہواور اس کا فائدہ عام وتام اور اس سے استفادہ آسان ہو لیکن کام اس قدر پھیلا ہوا تھا کہ اس کو سمیٹنا اور مرتب کرنا آسان نہ تھا ، اسی بنا پر اس کام میں تاخیر ہوتی رہی ، تاہم کام کی ابتداء بلکہ ایک حصہ کی تکمیل اپنے پیروومرشد حضرت مولانا سید صدیق احمد صاحب باندوی اور حضرت مولانا الشاہ ابرارالحق صاحب ؒ کی زیر نگرانی ہوچکی تھی ، حضرت مولانا الشاہ ابرارالحق صاحب کے نزدیک اس کام کی بڑی اہمیت تھی اور وہ میرے اس کام سے بڑے مطمئن اور قدرداں تھے، حضرت مولانا سید صدیق احمد صاحب باندویؒ کی تاکیدی ہدایت تھی کہ’’ ملفوظات ومواعظ کے مضامین کو بھی ضرور لیا جائے ‘‘
حضرت تھانویؒ کے ملفوظات ومواعظ کی خصوصیت اور آ پ کی تقریر وتحریر کا فرق یہ ہے کہ ایک بات اگر تحریر وتصنیف میں آتی ہے تو اکثر اس میں ایجاز واختصار اور دقیق مشکل الفاظ اور بسااوقات علمی اصطلاحات ہوتی ہیں جو عام لوگوں کی فہم سے بالاتر ہوتی ہیں ، لیکن وہی مضمون اگر ملفوظات ومواعظ میں اور بجائے تحریر کے تقریر میں آجائے تو وہ آسان اور عام فہم ہوجاتا ہے۔ اور اس میں بسط وتفصیل بھی ہوتی ہے ، اس وجہ سے ملفوظات ومواعظ کے مضامین لینا بھی ضروری تھا، لیکن حضرت تھانویؒ کے ملفوظات ومواعظ میں مضامینِ تصوف میں اس قدر تنوع وتکرار اور پھیلاؤ ہے کہ ان سب کو یکجا کرکے مرتب کرنا اور مکررات کو حذف کرنا آسان کا م نہ تھا ۔ اس لئے اس کام میں تاخیر ہوتی رہی۔
لیکن بعض مخلص مجبین کا برابر اصرار تھا کہ اس وقت اس کام کی شدید ضرورت