نیز ارشاد فرماتے ہیں :
’’طریق بالکل مردہ ہوچکا تھا لوگ بے حد غلطیوں میں مبتلا تھے ، الحمدللہ اب سوبرس تک تجدید کی ضرورت نہیں رہی، اگر خلط ہوجائے گا پھر کوئی اللہ کا بندہ پیدا ہوجائے گا ، ہر صدی پر تجدید کی ضرورت ہوتی ہے، اس لئے کہ اس مدت کے بعد نری کتابیں ہی کتابیں رہ جاتی ہیں ، اب تو خدا کا فضل ہے کہ وضوح ہوگیا، ایک صاحب نے عرض کیا کہ حضرت مجدد وقت ہیں جیسا بہت لوگوں کا خیال ہے ؟
فرمایا کہ احتمال تو مجھ کو بھی ہے مگر اس سے زائد نہیں ، جزم اوروں کو بھی نہ کرنا چاہئے ،
ظن کے درجہ کی گنجائش ہے ’’ ذالک فضل اللہ یوتیہ من یشاء‘‘ ۱؎
نیز ارشادفرماتے ہیں :
’’اس راہ میں ہزاروں راہزن اور ڈاکو مخلوق خدا کو گمراہ کرتے پھر تے ہیں ، انہوں نے جہل کے سبب تصوف کو ایسی بھیانک صور ت میں لوگوں کے سامنے پیش کیا ہے کہ بجائے رغبت کے اس سے نفرت پیدا ہوگئی ، مگر الحمد للہ اس وقت طریق بے غبار ہوگیا ہے، اور ان مکاروں کی دکانداریاں پھیکی پڑگئیں ، اب ان کے پھندوں میں جاہلوں کا آنا بھی آسان نہیں ‘‘ ۲؎
ایک جگہ ارشاد فرماتے ہیں :
’’میرے ایک دوست حج کو گئے تھے ، انہوں نے سلطان ابن سعود کے سامنے میرا یک رسالہ’’ التشرف بمعرفۃ احادیث التصوف‘‘ پیش کیا ، سلطان ابن سعود نے رسالہ کو دیکھ کر کہا ہذا یوافقنا ، سواگر اس رنگ کا تصوف پیش کیا جائے تو نہ نجدی کوئی انکار کرسکتا ہے اور نہ وجدی اور نہ کوئی‘‘۔۳؎
------------------------------
۱؎ ملفوظات حکیم الامت ص۱۳۹ ج۵ مطبوعہ ملتان،افاضات الیومیہ ص ۴۱۳؍ ذی لحجہ ۱۳۵۱ھ مطبوعہ دیوبند
۲؎ ملفوظات حکیم الامت ص۲۲۳ج۲ ملتان
۳؎ ملفوظات حکیم الامت ص۲۰۷ ج ۵ ملفوظ ۲۳۴۷