اور ان جیسے اور بہت سے بزرگان دین ومشائخ ملت یہ کام انجام دیتے رہے ۔
آخری دور میں گذشتہ صدی میں اللہ تعالیٰ نے حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی صاحب تھانویؒ کو پیدا فرمایا جنہوں نے اس علم وفن کی بڑی خدمت انجام دی ، حضرت علامہ سید سلیمان ندوی اور مفکر اسلام حضرت مولانا سید ابوالحسن علی ندوی ؒ نے جن کو اس فن کا مجتہدومجدد اور مکتشف اعظم قرار دیا ، مولانا عبدالماجد صاحب دریاآبادی جیسے حضرات نے تحریر فرمایا کہ:
’’ دنیا میں ان جیسا مربی ومصلح اور شیخ نہیں گذرا، حکیم الامت حضرت تھانویؒ کا پلہ غزالی سے بھا ری معلوم ہوتا ہے‘‘٭
بلاشبہ یہ فن مردہ ہوچکا تھا حکیم الامت حضرت تھانویؒ نے اس کی تجدید واحیاء فرمایا، اس فن سے کامل مناسبت اور تجدیدی کام کے متعلق اپنی بابت خود حکیم الامت حضرت تھانویؒ ارشاد فرماتے ہیں :
’’ بدوں مناسبت کے کسی فن کی کامل تحقیق نہیں ہوتی، فقہ سے تو مجھے پوری مناسبت نہیں اور تفسیر سے گوپوری نہیں لیکن فقہ وحدیث کی نسبت بہت زائد ہے۔ اور بحمدہٖ تعالیٰ تصوف سے کامل مناسبت ہے‘‘۱؎
نیز تحریر فرماتے ہیں :
’’ مجھ کو سخت سے سخت حالات پیش آچکے ہیں لہٰذا احوال باطنی کا ایسا تجربہ ہوگیا ہے کہ کسی سالک کی کتنی ہی الجھی ہوئی حالت ہو اور وہ کیسی ہی باطنی پریشانی میں مبتلا ہو بحمدللہ مجھ کو اس کے معالجے کے باب میں ذرا بھی تردد لاحق نہیں ہوا۔ اور بفضلہ تعالیٰ ایسی ایسی تدبیریں ذہن میں آجاتی ہیں کہ ان کے استعمال سے وہ نہایت سہولت اور سرعت کے ساتھ اس حالت سے نکل جاتا ہے بالخصوص وساوس وخطرات کی تشخیص ماہیت اور تجویز علاج میں تو اللہ تعالیٰ نے مجھ کو ایسی بصیرت عطا فرمائی ہے کہ آجکل کم لوگوں کو ہوگی ۔ فللہ الحمد والشکر (اشرف السوانح) ۲؎
------------------------------
۱؎ ملفوظات حکیم الامت ص۱۳۹ج۵ مطبوعہ ملتان ۲؎ مآثر حکیم الامت ص ۱۵۲ ٭معاصرین