حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ |
طبوعہ ر |
|
ویاجزک فیھم اور تمھیں اجر دے جس آستانے پر اتنی تگ و دو کے بعد پہنچے تھے انصاف کر سکتے ہو کہ اس کی دوری ایک لمحہ کے لئے بھی گوارا ہو سکتی تھی لیکن کیا کرتے جب کہ فکر خود ورائے خود، عالم رندی نیست کفرست دریں مذہب خود بینی و خودرائی آخر یہی ہوا کہ آپؓ دعوت و تبلیغ کے لئے آمادہ ہوگئے لیکن پھر بھی دبی ہوئی زبان سے فرمایا۔ انی منصرف الی اھلی و ناظر متی یوم بالقتال فالحق بک ( اچھا ) میں اپنے گھر جاتا ہوں ( مگر ) انتظار کرتا رہوں گا کہ جنگ کا کب حکم دیا جاتا ہے پس اسی وقت آپ سے ملونگا مقصود یہ تھا کہ فراق کی گھڑیوں کو کسی خاص زمانہ تک محدود کر دیا جائے، کم از کم اسی امید پر جیوں گا اس کے بعد یکایک آپ کو خیال گزرا کہ کہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کفار قریش کی ایذاؤں کو دیکھ کر میرے لئے یہ حکم تو صادر نہیں فرمایا۔ کہ اس ترکیب سے میں مکہ معظمہ کو چھوڑ دوں گا۔ معًا اس خیال کے آتے ہی تجاہل عارفانہ کرتے ہوئے آپؓ نے فرمایا۔ فانی اری قومک علیک جمیعًا اور آپ ﷺ کی قوم چوں کہ متفق ہو کر آپﷺ کے درپے ایذا ہے اس لئے بھی میرا جانا ہی مناسب ہے اور واقعہ بھی یہی تھا کہ جہاں سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کو آپؓ کے روانہ کرنے سے تبلیغ و ارشاد کا کام لینا منظورتھا ساتھ ہی۔ یہ بھی مد نظر تھا کہ ابوذرؓ ایک سخت آدمی ہیں، خواہ مخواہ اسی طرح دشمنان اسلام کے ہاتھ ان کو تکلیف اٹھانا پڑے گی۔ جس کی چند نظریں گذر چکی تھیں ان کے اس سوال کو سن کر ارشاد فرمایا۔