حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ |
طبوعہ ر |
|
سر تسلیم خم کر دوں گا، صبر کروں گا اور خدا سے اس صبر پر ثواب کی امید رکھوں گا میں سچ کہتا ہوں کہ اگر عثمانؓ ایسا کریں گے تو میں اپنے لئے اسی کو بہتر سمجھوں گا، اسی طرح اگر عثمانؓ آسمان کے اس کنارے سے اس کنارے تک مجھے دوڑنے کا حکم دیں گے، یا جہاں سے آفتاب اوگتا ہے اور جہاں جاکر ڈوبتا ہے اس کے درمیان میں مجھے چلنے کا امر کریں گے۔ تو میں اسے مانوں گا، سنوں گا، بجا لاؤں گا، اور صبر کروں گا، اور اس صبر پر خدا سے ثواب کی امید رکھوں گا، اور اپنے حق میں اسی کو بہتر خیال کروں گا۔ اسی طرح اگر وہ مجھے گھر میں رہنے دیں گے ( تو ٹھیک جس طرح گزشتہ باتوں میں میرا حال ہو گا ) اسی طرح اس حکم کو بھی مانوں گا، سنوں گا، اس وقت بھی ان کا مطیع ہوں، فرماں بردار ہوں اور اسی کو اپنے لئے بہتر سمجھوں گا۔ صبر کروں گا اور خدا سے اجر کی امید رکھوں گا‘‘ ۱؎ یہ تقریر جس بلیغ و مؤثر پیرائے میں ابوذرؓ کے اندرونی جذبات کی ترجمانی کر رہی ہے، حقیقت یہ ہے کہ سرکشوں کے ہوش اُڑ گئے ہوں گے، امید معاونت تو کجا، خود انہیں اپنی جان کے لالے پڑ گئے۔ اللہ اکبر جو شخص اونچی سی اونچی لکڑی کی پھانسی کو، اور گھر میں رہنے کو، برابر خیال کرتا ہو، دونوں فرمانوں کو ایک نظر سے دیکھتاہو، اس کی وفا شعاریوں کی کوئی حد ہو سکتی ہے؟ اس تقریر کے پڑھ لینے کے بعد کون دیوانہ کہہ سکتا ہے کہ حضرت ابوذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا سینہ خلیفہ ثالث رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طرف سے صاف ------------------------------ ۱؎ طبقات ابن سعد ۱۶۷ ج ۴