حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ |
طبوعہ ر |
بعد یک سوئی و یک دلی کے ساتھ ؏ بیٹھے رہیں۔ تصورِ جاناں کئے ہوئے سے ان کو کون روک سکتا تھا، صاحب ’’ حلیہ ‘‘ محمد بن واسع سے ناقل ہیں وہ کہتے ہیں کہ میں ایک دفعہ خاص کر بصرہ سے بقصد ربذہ اس لئے روانہ ہوا کہ حضرت ابوذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ان مشاغل کو آپ کی محترمہ صاحبہ سے دریافت کروں، جن میں ربذہ کی زندگی گزری۔ بیوی صاحبہ نے ان کی مصروفیت کا صرف اس قدر جواب دیا۔ کان النھار اجمع یتفکر دن بھر تصور و تفکر میں گزرتا۔ لیکن توبہ کے ابتدائی ایام میں جو خدا کی مرضی و عدم مرضی کے علم حاصل کرنے سے قبل خود اپنی دل سے رات رات بھر خود ساختہ نماز پڑھا کرتا ہو، اور اتنے انہماک سے پڑھتا ہو، کہ آخر میں بے ہوش ہو کر گر پڑتا ہو، راتوں کو کیا حال ہوگا اس کا جب وہ سب کچھ جانے کے بعد، وہاں جانے کے لئے تڑپ رہا تھا، جہاں جانے سے سب ڈرتے ہیں، امرأ بنی امیہ ۱؎ کے متعلق کبھی یہ بھی فرماتے۔ ------------------------------ ۱؎ امرأ بنی امیہ سے مراد دراصل اس موقعہ پر وہی طبقہ ہے جس نے حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی نیکیوں سے ناجائز فائدہ اٹھا کر خود اپنے آپ کو جو کچھ رسوا کیا ہو تو کیا ہی مصیبت یہ ہوئی کہ ان کی وجہ سے حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طرف سے ایک خاص طبقہ میں خواہ مخواہ کی بدگمانیاں پیدا ہوگئیں۔ انساب الاشراف میں البلاذری نے لکھا ہے کہ مروان اور حارث بن الحکم بن معاص وغیرہ نے عہد عثمانی میں بڑے بڑے رقوم حاصل کئے، گو اس سلطنت گیری کے لحاظ سے وہ چنداں اہمیت نہیں رکھتے تھے بعضوں کو چالیس پچاس ہزار روپے مل گئے۔ اور جو اسلامی حقوق زکٰوۃ خیرات کے ان پر عاید ہوتے تھے ان سے لاپروائیاں برتنے سے تو حضرت ابوذرؓ ’’ کنز ‘‘ کے حرافی خمیازوں کی دھمکیاں علانیہ ان لوگوں کو سنانے لگے، اسی پر مروان حضرت ابوذرؓ کا سخت مخالف ہوگیا تھا ظاہر ہے کہ ان امرأ سے یہی لوگ مراد ہیں۔ دیکھو البلاذری ۷۶ ج۵