حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ |
طبوعہ ر |
|
اس کے چھوٹے گناہوں کی فہرست اس طرح پیش کریں گے کہ تم نے فلاں دن یہ کہا۔ فلاں دن یہ کیا وہ بیچارا اقرار کرتا جائیگا اور دل میں ڈرے گا کہ دیکھئے جب کبائر کی فہرست پیش کی جائیگی تو کیا ہو گا۔ فرشتے جب صغائر پوچھ کر فارغ ہو جائیں گے تو آواز آئے گی کہ اس کو ہر ہر گناہ کے بدلے ایک ایک نیکی دیتے چلے جاؤ۔ اس رحیمانہ فرمان کے سنتے ہی وہ شخص غل مچانے لگےگا، شور کرے گا۔ کہ فرشتو! ٹھیرو! ابھی ہمارے پاس اور بھی بڑے بڑے گناہ ہیں ان کو بھی گن لو، میں اس فہرست میں انھیں نہیں دیکھتا ‘‘ (یعنی ان کے عوض میں بھی مجھے نیکیاں ملنی چاہئیں ) حضرت ابوذرؓ اس لفظ پر آ کر ٹھیر جاتے اور فرماتے رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم جب اس حدیث کو بیان کرتے تو اس قدر ہنسا کرتے کہ آپ ﷺ کی ڈاڑھیں کھل جاتیں۔ ۱؎ اس کے بعد حضرت ابوذرؓ کس قدر ہنسا کرتے اس کا اندازہ تم خود ہی لگا سکتے ہو۔ خصوصًا جب ہمیں یہ بھی معلوم ہے کہ حدیث بیان کرتے وقت حضرت ابوذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی عام عادت یہ بھی تھی کہ قول کے ساتھ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فعل کو بھی کر کے دکھاتے جو حدیث بیان کرتے ہوئے آپ ﷺ کرتے۔ بدبخت عبداللہ بن زیاد جسے مسلمان ابن زیاد کے نام سے جانتے ہیں جب کوفہ کا امیر ہوا تو اپنے پیش رو گورنروں کے خلاف جماعت کی نماز میں تاخیر کرنے لگا حضرت ابوذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بھتیجے عبداللہ بن صامت نے دریافت کیا کہ ایسی صورت میں کیا کرنا چاہئے۔ کیا ہم لوگ بھی اپنی نمازوں کو مکروہ اوقات تک مؤخر کریں۔ عبد اللہ بن صامت فرماتے ہیں کہ یہ سنتے ہی حضرت ابوذرؓ نے میرے زانو پر ------------------------------ ۱؎ صحاح خصوصًا ترمذی دیکھئے اور مسند احمد