با قی نہیں رہے، عربی شاعر اس مضمون کو اس طرح گنگناتا ہے:
تزود من التقوی فانک لا تدری
اذا جن لیل ھل تعیش الی فجر
فکم من صحیح مات من غیر علۃ
وکم من علیل عاش حینا من الدھر
وکم من صبی یرتجی طول عمرہ
وقد نسجت اکفانہ وھو لا یدری
وکم من عروس زینوھالزوجھا
وقد قبضت روحا ھما لیلۃ القدر
’’ تقوی کو سفر آخرت کے لئے زاد راہ بنالیجئے، کیوں کہ آپ کو کیا خبر کہ رات کے چھا جانے کے بعد صبح تک آپ کی زندگی رہے گی یا نہیں، کتنے صحیح سالم لوگ بغیر کسی بیماری کے لقمۂ اجل بن گئے، اور کتنے بیمار مدت دراز تک زندہ رہے، کتنے بچے ایسے ہیں جن کے عمروں کی درازی کی امید کی جاتی ہے جبکہ ان کا کفن تیار ہوچکا ہوتا ہےاور انہیں معلوم بھی نہیں ہوتا، کتنی دلہنیں ایسی ہیں جن کو ان کے شوہروں کے لئے آراستہ کیا گیا جبکہ لیلۃ القدر میں ان کی موت کا فیصلہ ہوچکا تھا‘‘۔
حضرت عون بن عبد اللہ ؒ فرماتے ہیں: ما انزلَ الموتُ كنهَ منزِلته منْ عدَّ غدًا مِنْ أجلهِ، وَكمْ مستقبلٍ يَوما لا يَستكملُهُ، وَكَمْ مُؤمّلٍ لِغدٍ لا يدْركهُ، لو رَأيتمُ الاجلَ ومسِيرهُ، لابغضتمُ الاملَ وَغرورَهُ۔’’جوشخص آنے والے کل کو اپنی زندگی میں شمار کرتا ہے وہ موت کے حقیقی مقام کو نظر انداز کررہا ہے، آج کے دن کو پانے والے کتنے لوگ ایسے ہیں جو اس کو مکمل نہیں کر سکے، اور آئندہ کل کو پانے کی امید رکھنے والے کتنے لوگ ایسے ہیں جو اس کو نہ پاسکے، اگر تم موت اور اس کی رفتار کو دیکھ لو تو امیدوں سے اور اس کے دھوکے سے تم خود نفرت کرنے لگو‘‘۔
پس جب موت نہ کسی عمر کی پابند ہے اور نہ کوئی حالت اس کی آمد کے لئے ضروری ہے، وہ ہر حال میں ہر وقت آسکتی ہے تو کسی عمل کو بعد میں کرنے کے ارادہ سے مؤخر کرنا دانشمندی کے خلاف ہے، آدمی کو سوچنا چاہئے کہ یہ میری زندگی کا آخری دن ہے، حضرت ابن عمرؓ کا قول پہلے