سے بیگانہ ہوجاتا ہے، اس کو رسمیات کے اہتمام کی ضرورت نہیں ہوتی، اور میں تو جس کو بناؤ سنگار اور چٹک مٹک کرتا ہوا دیکھتا ہوں فورا ذہن میں یہی آتا ہے کہ یہ شخص کمالات سے کورا ہے، جب ہی تو عبث اور فضول کی طرف متوجہ ہے، اور اکثر تجربہ سے یہی ثابت بھی ہوتا ہے، اہل کمال کو اس ظاہری ٹیپ ٹاپ کی ضرورت ہی کیا ہے۔
اور ایک مجلس میں ارشاد فرماتے ہیں:
میں جب کسی کو دیکھتا ہوں کہ لباس و پوشاک میں تکلف کا پابند ہے تو دو چیزوں پر استدلال کرتا ہوں، ایک یہ کہ یہ نکمّا آدمی ہے، دوسرے یہ کہ بہت پست حوصلہ ہے، کیوں کہ اگر یہ کام کا ہوتا اور کسی بڑے مقصد کی طرف اس کی نظر ہوتی تو اس میں وقت ضائع نہ کرتا۔
آپؒ کے ملفوظات میں یہ بھی ہے:
سادگی علو اور عظمت کی دلیل ہے، میں جب کسی کو بنا ٹھنا دیکھتا ہوں تو سمجھ جاتا ہوں کہ نہایت پست خیال شخص ہے، اگر بلند ہمت ہوتا تو اس کو فرصت ہی نہ ملتی۔۔جو لوگ ہر وقت مزین اور آراستہ رہتے ہیں اکثر ان میں عقل اور بیداری نہیں ہوتی، کیوں کہ توجہ ایک ہی طرف ہوتی ہے، یا تو جسم کو آراستہ کرلویا قلب کو آراستہ کرلو۔(آداب المعاشرۃ۲۵۹)
کبوتر کے تن نازک میں شاہیں کا جگر پیدا کرنے والی نوائے اقبالؒ سنئے؛
ہمت عالی تو دریا بھی نہیں کرتی قبول ت
غنچہ سا غافل تیرے دامن میں شبنم کب تلک
جب تیرے بازو میں ستاروں تک پرواز کرنے کی طاقت ہے تو شاخسار میں کیوں الجھ گیا،
میانِ شاخساراں صحبت ِمرغ چمن کب تک
تیرے بازو میں ہے پروازِ شاہین قہستانی
عجیب بات ہے کہ لوہا تو موجود ہے لیکن تیرے مقناطیس میں کشش نہیں؛
تیرا اے قیس کیوں کر ہوگیا سوز ِدروں ٹھنڈا
کہ لیلا میں تو اب تک ہے وہی انداز ِلیلائی