﴿وَسَارِعُوْٓا اِلٰى مَغْفِرَۃٍ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَجَنَّۃٍ عَرْضُھَا السَّمٰوٰتُ وَالْاَرْضُ اُعِدَّتْ لِلْمُتَّقِيْنَ﴾ آلعمران: ١٣٣
اور اپنے پروردگار کی بخشش اور بہشت کی طرف دوڑو جس کی وسعت آسمانوں اور زمین کے برابر ہے اور جو (خدا سے) ڈرنے والوں کے لیے تیار کی گئی ہے ۔
﴿ سَابِقُوْٓا اِلٰى مَغْفِرَۃٍ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَجَنَّۃٍ عَرْضُہَا كَعَرْضِ السَّمَاءِ وَالْاَرْضِ ﴾ الحديد: ٢١
تم اپنے پروردگار کی مغفرت کی طرف دوڑو، اور ایسی جنت کی طرف جس کی وسعت آسمان و زمین کی وسعت کے برابر ہے(یعنی اس سے کم کی نفی ہے زیادہ کی نفی نہیں)۔
جنت کی طرف دوڑ لگانے والے، امور آخرت میں آگے بڑھنے کی کوشش کرنے والے اللہ کے پیارے ہیں، اللہ تعالی ان کی تعریف کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
﴿وَالسّٰبِقُوْنَ السّٰبِقُوْنَ اُولٰۗىِٕكَ الْمُقَرَّبُوْنَ فِيْ جَنّٰتِ النَّعِيْمِ ثُـلَّۃٌ مِّنَ الْاَوَّلِيْنَ وَقَلِيْلٌ مِّنَ الْاٰخِرِيْنَ ﴾ الواقعۃ
’’اور جو سبقت لے جانے والے ہیں وہ تو ہیں ہی سبقت لے جانے والے، وہی ہیں جو اللہ کے خاص مقرب بندے ہیں، وہ نعمتوں کےباغات میں ہوںگے، ایک بڑا گروہ اگلے لوگوں میں سے ہوگا، اور تھوڑے پچھلے لوگوں میں سے ہوںگے‘‘۔
﴿اُولٰۗىِٕكَ يُسٰرِعُوْنَ فِي الْخَــيْرٰتِ وَہُمْ لَہَا سٰبِقُوْنَ ﴾ المؤمنون ۶۱
’’یہی لوگ نیکیوں میں جلدی کرتے ہیں اور یہی اُن کے لئے آگے نکلنے والے ہیں‘‘۔
قرآن کریم نے جنت کے درجات اور ان کی عمدہ نعمتوں کا ذکر کھول کھول کر بیان کیا ہے، مقصد صرف یہ ہے کہ انسان اس کی طرف دوڑ لگائے، اس کی طرف سبقت کرے، بے شک و