منزل متعین کرنے میں ہمت کا بڑا دخل ہوتا ہے، ہمت پست ہوتی ہے تو معمولی اعمال کی بجاآوری سے دل کو سکون مل جاتا ہے، اور جو اس سے کچھ بلند ہے وہ اپنی بلندی کے حساب سے اعمال میں اضافہ کرتا ہے، اور اس حد تک پہنچنے کے بعد مطمئن ہوجاتا ہے، کسی کو چند نوافل اور کچھ حصہ تلاوت کا متعین کرکے قرار آگیا، کسی کو تہجد پڑھ کر سکون مل گیا، تو کوئی دن بھر کے نوافل اور مسنون اوراد کی بجاآوری پر مسرور ہوگیا، لیکن یہ محدود ہمتوں کا حال ہے، جو محدود اعمال پر قناعت کرلیتی ہیں، جب ان کے سامنے آخرت کی تیاری کی یا جنت کی طرف دوڑ لگانے کی بات آتی ہے تو ان کا ضمیر حرکت میں نہیں آتا، ان کے اندر سے جواب آتا ہے کہ الحمد للہ ہم اس سے غافل نہیں ہے، ایسے لوگوں کو جنت کے بلند درجات اور قرب الہی کے اعلی مقامات کی طرف مسابقت کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں ہوتی، ان بلند مقامات کے الطاف و انوارات، عجائب و برکات کا تذکرہ انہیں اس راستے پر نہیں ڈالتا جس سے منزل تک رسائی حاصل ہو، وہ صرف تمناؤں اور سرسری دعاؤں سے ہی ان تذکروں کا حق ادا کردیتے ہیں، یہ سب اس لئے کہ ہمت میں کوتا ہی ہے، ان کی ہمت میں وہ وسعت و طاقت اور بلندی نہیں ہے جس سے آفاق گیری کے ولولے پیدا ہو، اور ایک بہت بڑا ہدف طے کرکے اس کی طرف دوڑ لگانے کی کوشش ہو۔
عالی ہمتی اور بلند حوصلگی جس کو نصیب ہوجاتی ہے اس میں گویا جذبات کا ایک ایسا بحر متلاطم پنہا ہوتا ہے جو ہر چیز پر چھا جانے لئے بے قرارہو، وہ جس منزل پر پہنچتا ہے ھل من مزید کا نعرہ لگاتا ہے، کسی بلند سے بلند منزل تک پہنچنے کے باوجود اس کا ضمیر اس کو جھنجھوڑکر کہتا ہے
خودی کی یہ ہے منزل اولیں
مسافر! یہ تیرا نشیمن نہیں
بڑھے جا یہ کوہ ِ گراں توڑ کر
طلسم زمان و مکاں توڑ کر
یہ وہ نہیں جو ایک دو قطرے پی کر نشے میں آجاتی ہے،چند اعمال پر نظر جانے لگتی ہے، بلکہ اس کی