ہے، اور جس قدر بھی حاصل ہوجائے اسے کم سمجھتا ہے، اور ہمیشہ اس کو یہی حسرت رہتی ہے کہ اگر میں اور زیادہ محنت کرتا تو اور زیادہ حاصل کرتا، دنیا کے شیدائی مال و دولت کی کسی بھی مقدار پر قناعت نہیں کرتے ، بلکہ جتنابھی حاصل ہوجائے مزید حاصل کرنے کی فکر میں رہتے ہیں، اور اپنے سے زیادہ دولت مند انسان کو نشانہ بنا کر سوچتے ہیں کہ ابھی تو مجھے اس کے برابر مالدار بننا ہے،کئی انسان ایسے دیکھے ہیں کہ اگر وہ معاش کی فکر بالکل چھوڑ دے اور اپنی زندگی دینی کاموں کے لئے وقف کردے تب بھی پوری زندگی آرام سے اپنی ضروریات پوری کرسکتے ہیں، بلکہ ان کی جمائی ہوئی تجارت ان کی اولاد کے لئے بھی کافی ہوسکتی ہے، لیکن اس کے باوجود ہمیشہ تجارت میں ترقی اور اضافے کی تدبیریں کرتے رہتے ہیں، ہمیشہ اسی منصوبے میں دماغ دوڑتا رہتا ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ اس کے شیدائی ہیںاس کی قدر و منزلت نے دل و دماغ پر قبضہ جمایا ہے۔
ٹھیک یہی حالت انسان کی وقت کے متعلق بھی ہوجاتی ہے جب وقت کی قدرو قیمت اس کے دل میں جانشیں ہوجاتی ہے،تو پھر اس کو عبادت میں صرف کرنے کے باوجود اپنی حالت پر ندامت کرتا ہے کہ میں نے محنت میں کوتاہی کرلی، کاش میں مزید محنت کرتا تو اور آگے بڑھتا، پھر یہی احساس انسان کو ایک پل بھی غافل ہونے نہیں دیتا۔
حضرت ثابت بنانیؒ فرماتے ہیں کہ میں نے یزیدؒ سے زیادہ جاگنے والا اور لمبا قیام کرنے والا نہیں دیکھا، آپؒ اتنا روتے تھے کہ آنسوں بہنے کی جگہ نشانات پڑ گئے تھے، آپؒ سے کسی نے سوال کیا کہ آپ رونے سے نہیں اکتاتے؟ آپؒ نے فرمایا: میں تو چاہتا ہوں کہ اتنا روؤں کہ آنسوں کی جگہ خون بہنے لگے، پھر اتنا روؤں کہ خون کی جگہ پیپ بہنے لگے، اشعث بن سوار کہتے ہیں کہ حضرت یزید رقاشیؒ نے چالیس سال روزے رکھے،اتنا سب کچھ کرنے کے بعد بھی آپؒ فرمایا کرتے تھے: سَبقَني العابدُونَ وقُطعَ بي وَالهفَاه(ہائے افسوس! عبادت گزار مجھ سے