عبد اللہ بن مبارکؒ جب طرسوس میں داخل ہوئے تو آپ پر گریہ طاری ہوگیا لوگوں نے پوچھا اے ابو عبد الرحمن! آپ کیوں رورہے ہیں؟ آپؒ نے فرمایا: بَكَيتُ عَلَى فَناءِ عُمرِي و ضيعتِه۔’’میں اپنی عمر کے فنا ہونے اور اس کےضائع ہونے پر رورہا ہوں‘‘۔(العمر والشيب)
حضرت مفتی شفیع صاحبؒ نے زندگی میں بہت کام کیا، اور بڑی اہم دینی خدمات کرکے اس زندگی کو محفوظ کردیا ، اگر یہ کہا جائے کہ زندگی کا حق ادا کردیا تو بے جا نہ ہوگا، آپ اپنے اوقات میں سے ایک منٹ بھی ضائع نہیں فرماتے تھے، ہمہ وقت مشغول رہتے تھے، لیکن اس کے باوجود جب آپ کی عمر کے پچھتر سال پورے ہوئے تو زندگی کی مہلت کے ضائع ہونے کے احساس سے غمزدہ ہوکر یہ اشعار کہے جو مجالس حکیم الامتؒ (ص۱۵۳) میں تحریر فرمائے ہیں:
پنج و ہفتاد آمد از عمر عزیز
بے عمل بے علم بے رشد و تمیز
وائے بر من فرصت عمر دراز
دادہ ام در غفلت و در حرص و آز
’’عمر عزیز کے ۷۵ سال ہوگئے لیکن اب تک بے عمل بے علم اور رشد و تمیز سے تہی دامن رہا، مجھ پر افسوس ہے کہ میں نے لمبی عمر غفلت اور حرص و طمع میں گذار دی‘‘۔
شیخ سعدیؒ نے بھی اپنی عمر کے ضائع ہونے پر نفس کو ملامت کی ہے، فرماتے ہیں:
چہل سال عمر عزیزت گذشت
مزاج تو از حال طفلی نہ گشت
ہمہ با ہواؤ ہوس ساختی
دمے با مصالح نہ پرداختی
مکن تکیہ بر عمر ناپائیدار
مباش ایمن از بازیٔ روزگار
’’تیری زندگی کے چالیس سال گذر چکے لیکن تیرے مزاج میں لڑکپن ہی رہا، ساری عمر خواہشات کی بھینٹ چڑھادی ایک دم بھی مفید کاموں میں نہیں لگا، تو ختم ہونے والی عمر پر بھروسہ مت کرنا اور گردش زمانہ سے مطمئن نہ ہونا‘‘۔