اپنی توجہ اپنی دھن کے اعتبار سے عام انسانوں میں اور ان میں بے انتہاء مسافتوں کی دوری تھی، گویا دونوں کا عالم ہی جدا تھا، وہ حضرات جس عالم میں بستے تھے وہاں الفاظ تو وہ ہی رہتے تھے معانی بدل جاتے تھے،نظر وہ ہی رہتی تھی، غرض و غایت بدل جاتی تھی،دل تو وہ ہی رہتا تھا تمنائیں بدل جاتی تھی، دماغ وہ ہی رہتا تھا خیالات بدل جاتے تھے،ان کے یہاں کامیاب تجارت کرنے والے، علوم و فنون میں ہمعصروں پر فوقیت لے جانے والے ، اپنے حریف کو مسکت جواب دینے والے کو عقلمند نہیں کہا جاتا ، بلکہ ان کے یہاں عقلمند کا ایک ہی معنی تھا، وہ ہےموت سے پہلے موت کے بعد کی تیاری کرنے والا، اسی طرح عافیت کا معنی ان کے یہاں ایمان و اعمال کی سلامتی ہے، اگر ایمان و اعمال میں کوتا ہی ہے تو وہ خود کو عافیت میں نہیں سمجھتے تھے، تجارت سے ان کا ذہن اخروی تجارت کی طرف ہی منتقل ہوتا تھا، ابو مسلم خولانیؒ نے ایک شخص کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ آج مقابلے میں فلاں شخص آگے بڑھ گیا، ابومسلمؒ نے اس سے کہا کہ نہیں سبقت کرنے والا تو میں تھا، اس شخص نے تعجب سے پوچھا کہ آپ کیسے؟ آپؒ فرمایا کہ جب میں مسجد میں داخل ہوا تو مجھ سے پہلے آنے والا کوئی نہیں تھا میں ہی پہلے داخل ہوا تھا، اسی طرح قوت و بہادری ، خوبصورتی،میراث، کامیابی و ناکامی اور دیگر بہت سے الفاظ کے معانی متعین کرنے میں ان کے دل و دماغ کا معیار عام انسانوں سے مختلف ہوتا تھا،’’فرصت نہیں ہے‘‘ کا معنی عام انسانوں کے نزدیک یہ ہے کہ دنیوی مشاغل کی کثرت نے دینی امور سے مشغول کردیا، لیکن ان کے یہاں اس کا کچھ اور ہی معنی مراد ہوتا ہے جس کو شاعر نے اچھی طرح واضح کیا ہے؛
وقت فرصت ہے کہاں کام ابھی باقی ہے
نورِ توحید کا اتمام ابھی باقی ہے
گویا وہ علامہ اقبال کے اس شعر کے مصداق تھے،
پرواز ہے دونوں کی اسی ایک فضا میں
گرکس کا جہاں اور ہے شاہیں کا جہاں اور