کل رات روزانہ کے معمول کی طرح نماز نہیں پڑھ سکا، اور نہ میں روزہ رکھ سکا، اور نہ میں اپنے ساتھیوں کے پاس ذکر کی مجلس میں شریک ہوسکا، اے اللہ ! جب تو نے مجھے ان چیزوں سے روک دیا ہے تو اب مجھے دنیا میں ایک گھڑی بھی زندہ مت رکھ، حضرت مالک بن دینارؒنے اپنے مرض وفات میں فرمایا: اے اللہ! یقینا تو جانتا ہے کہ مجھے زندگی سے محبت پیٹ اور شرمگاہ کی شہوتوں کو پورا کرنے کے لئے نہیں تھی(بلکہ تیری بندگی اور تجھے راضی کرنے کے لئے زندگی سے محبت کرتا تھا)(منجد الخطیب) کئی اولیاء کرام کے متعلق مروی ہے کہ اگر ان سے کہا جائے کہ قیامت آگئی، یا ملک الموت دروازے پر کھڑے ہیں تب بھی ان کو اپنے عمل میں اضافہ کرنے کی گنجائش نہ ملے،ان کی پوری زندگی اسی مشغولیت میں نکل گئی، اور کسی نے کہا ہے اگر میں جنت و جہنم کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لوں تب بھی میرے عمل میں مزید کی گنجائش نہیں ہے،جس طرح ایک عام انسان کے سامنے روٹی کا نام لینے سے فورا یہ بات ذہن میں آتی ہے کہ وہ بھوک ختم کرنے کا ایک ذریعہ ہے، اس مقصد کو سامنے لانے یا ذہن کو اس کی طرف متوجہ کرنے کے لئے یاد دہانی کی یا ذہن کے بیدار ہونے کی ضرورت نہیں ہوتی، بلکہ غفلت میں ،نیند کے غلبہ کے وقت ، گہری فکروں میں مستغرق ہونے کی حالت میں بھی روٹی کا نام لینے سے فورا ذہن میں مقصد کا استحضار بھی ہوجاتا ہے، اسی طرح ان حضرات کے سامنے زندگی کا نام آتے ہی بے تکلف ذہن میں اس بات کا استحضار ہوجاتا تھا کہ آخرت کی تیاری کا وقت ہے، ان کی مثال ایسی ہے جیسے ایک مزدور سے کہا جائے کہ دس گھنٹے کا موقع آپ کو دیا جاتا ہے اس میں جتنا کام ہوگا اسی قدر آپ کو عزت و مال سے نواز جائے گا، ظاہربات ہے وہ مزدور ان دس گھنٹوں میں بالکل آرام و راحت کی فکر نہیں کرے گا،اور نہ کسی دوسرے کام کی طرف توجہ کرے گا، بلکہ مسلسل اپنے کام میں مصروف رہے گا ، بالکل اسی طرح ان اولیاء کرام نے اپنی عمر عزیزکے لمحات گزار دئیے، وہ بظاہر عام انسانوں کے ساتھ رہتے تھے، لیکن