نظام الاوقات کا مطلب ہے دن بھر کے معمولات کے لئے اوقات طے کرنا ،مثلا صبح صادق سے ۴۰ یا ۵۰ منٹ پہلے اٹھ جاؤں گا، یا جماعتِ فجر سے ۳۰ یا ۴۰ منٹ پہلے اٹھ جاؤں گا، پھر نماز کے بعد تلاوت قرآن کروں گا، پھر ضروریات سے فراغت کے بعد اتنے بجے معاشی ذمہ داری میں مصروف ہوجاؤں گا، نماز ظہر سے ۳۰ منٹ پہلے نماز کی تیاری شروع کروں گا، نماز کے بعد کوئی ذمہ داری ہوتو ٹھیک ہے ورنہ ایک گھنٹہ کتاب کا مطالعہ کروں گا یا معمولات پورے کروں گا، پھر عصر تک خانگی ضروریات کی تکمیل کروں گا، عصر کے بعد تسبیحات سے فارغ ہوکر اہل خانہ کو وقت دوں گا، مغرب کے بعد نوافل سے فارغ ہوکر عشاء سے پہلے کھانے سے فارغ ہوجاؤں گا، عشاء کے بعد معمولات و ضروریات سے فارغ ہوکر سوجاؤں گا، یہ پورے دن کے نظام الاوقات کی ایک مثال ہے،اس طرح ہر شخص اپنے حساب سے اپنا نظام الاوقات طے کرسکتا ہے۔
ہمارے معاشرے میں سونے اٹھنے کا نظام ہی بگڑ چکا ہے، رات کو دیر تک محفلیں لگتی ہیں، رات کو بہت دیر سے سونا اور صبح بہت دیر سے اٹھنا معمول بن گیا ہے، اس طرح آدمی رات میں فضول گوئی اور غیبت میں ملوث ہوتا ہے اور صبح کی برکتوں سے بھی محروم رہ جاتا ہے، اور بعض مرتبہ تو اس کی نحوست سے فجر کی نماز بھی قضا ہوجاتی ہے، یہ ماحول اسلام کے مزاج سے بالکل مختلف ہے، اس لئے اپنے نظام الاوقات میں اس کا بہت خیال رکھنا چاہئے۔
نظام الاوقات کو لکھنا چاہئے، صرف ذہن میں طے کرلینے سے نہ اس کی اہمیت دل میں آتی ہے اور نہ یاد رہتا ہے، اور لکھا ہوا دیکھنے سے ایک تقاضا بھی پیدا ہوتا ہے، اور تحریر یاد دہانی کا کام بھی دیتی ہے، نظام الاوقات طے کرنے کے بعد اس کے مطابق عمل کرنے کی پوری کوشش کی جائے،اور یہ بات خاص طور سے ذہن نشین کرلی جائے کہ نظام الاوقات میں کامیابی ایک دم نہیں ملتی، آدمی نظام الاوقات بناتا ہے لیکن اس کے مطابق کام نہیں ہوپاتا، پختہ ارادہ کرتا ہے لیکن کسی