تذکرہ مجمع البحار |
ہم نوٹ : |
|
مولاناشاہ عبدالغنی پھولپوریرحمۃ اللہتعالیٰ علیہ کےتلمیذ خاص تھے۔حضرت پھولپوری رحمۃ اللہ علیہ ایک واسطے سے منبعِ علم وفضل حضرت مولانا رشید احمدگنگوہی رحمۃ اللہتعالیٰ علیہ کے شاگرد ہیں۔حضرت پھولپوری رحمۃ اللہتعالیٰ علیہ کے استاد حضرت مولاناعبدالماجد جون پوریرحمۃ اللہتعالیٰ علیہ ہیں جو حضرت گنگوہیرحمۃ اللہتعالیٰ علیہ کے شاگرد اور مولانا محمدیحییٰ کاندھلوی رحمۃ اللہتعالیٰ علیہ کے ہم جماعت ہیں ۔ پوری دنیاکے اہلِ علم جہاں آپ کے روحانی فیضان کی وجہ سے متأثر تھے وہیں آپ کے علمی نکات اور قرآن وحدیث کی نصوص پر گہری نظر کے بھی معترف تھے،یہی وجہ تھی کہ آپ کے حلقۂ ارادت میں ہرملک کے کبار علماء داخل تھے جو اپنی روحانی اصلاح و تزکیہ کے ساتھ ساتھ حضرت شیخ سے علمی پیاس بھی بجھایاکرتے تھے۔حضرت مولاناہدایت اللہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ بنگلہ دیشی جوبقول شیخ الاسلام حضرت مفتی محمدتقی عثمانی دامت برکاتہم ایشیاء کے سب سے بڑے محدث تھے وہ بھی آپ کے ارادت مندوں میں داخل اور خلفاء میں سے تھے ۔ حضرت شیخ رحمۃ اللہ علیہ نے تصوف کو قرآن وحدیث سے مدلل کردیاتھا اور اکابر کی وہ باتیں جوراہِ تصوف میں اجماعی سمجھی جاتی ہیں ان پر قرآن وحدیث سے دلائل پیش فرمائے تھے اور خود فرمایاکرتے تھے کہ ہماراتصوف بلادلیل نہیں اور کبھی یہ شعر بھی ارشاد فرماتے ؎ ہماری آہ بے سبب تو نہیں ہمارے زخم سیاق و سباق رکھتے ہیں نمونہ ازخروارے کے طور پر بندہ عرض کرتاہے کہ اہلِ دل کے ہاں کسی اللہ والے کی تھوڑی سی صحبت سوسالہ بے ریاعبادت سے افضل ہے او ر فارسی کامشہور شعرہے ؎ یک زمانہ صحبتِ با اولیاء بہتر از صد سالہ طاعت بے ریا بلکہ حکیم الامت حضرت مولاناشاہ اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے اس پرفرمایاتھا کہ اس میں یہ ہوناچاہیے ؎