ماہنامہ الحق مارچ اپریل مئی 2014ء |
امعہ دا |
|
مجروح قلم سے کہاں نوحے پھوٹتے ہیں؟ قلم بشکن ، سیاہی ریز ، کاغذ سوز ، دم درکش حمیدؔ ایں قصہء عشق ست در دفتر نمی گنجد حضرت فانی صاحب کی یاد میں ’’الحق‘‘ کی خصوصی اشاعت پریس میں جانے کیلئے تیار ہے لیکن اُبلتے ہوئے خون کے آنسوئوں کی شدت کے باعث ایک ایک حرف لکھنا میرے لئے جوئے شیر لانے کے مترادف ہورہا ہے۔دوماہ میں کئی بار لکھنے کی ناکام کوشش کی لیکن ہربار اپنے ہی آنسوئوں اور جذبات کا سمندر مجھے بہا کر کہاں سے کہاں پہنچا دیتا ہے۔ حضرت فانی صاحبؒ جیسی باغ و بہار شخصیت بلکہ یوں کہیے کہ سراپا زندہ دلی وزندگی کی علامت کو کیسے موت کی اندھی وادیوں کامسافر قرار دوں ؟ ۔ یہ میری بدقسمتی ہے یا حساسیت اور جنوں کی انتہا کہ اپنے اُس استاد اورمشفق ہستی پر چند صفحات بھی سلیقے کے نہ لکھ سکا ،جس شخصیت نے مجھ جیسے ادنیٰ طالبعلم کو قلم کی حلاوت سے روشناس کرایا تھا۔جن کی فیضان ِ نظر نے مجھ سے طفل ِ مکتب کو شعروادب اور علم و صحافت کے آداب سکھائے تھے۔ میرے جیسے ناکارہ درجہ سادسہ کے طالبعلم وصاحبزادہ کیلئے ماہنامہ ’’الحق‘‘ جیسے بڑے علمی ادبی مجلے کی ادارت سترہ برس قبل سنبھالنا ناممکن تھالیکن حضرت فانی صاحبؒ ہمیشہ ہمت ، داد، مفید مشوروں سے مجھ پر شفقت فرماتے رہے بلکہ یوں کہیے کہ زندگی کے کئی نشیب و فراز میں بھی مجھے اس طرح سہارا دیتے رہے جیسے بڑے چھوٹے بچوں کو گرنے اور ٹھوکر کھانے سے بچاتے رہتے ہیں۔یوں فانی صاحب ایک بہترین اور مشفق استاد ہونے کے ساتھ ساتھ میرے بے تکلف دوست اور بھائی بھی تھے۔ایسے رفیق ِسفر کی المناک جدائی نے یادوں کے حسیں گلشن کو اُجاڑ دیا ہے۔گوکہ آپ کی یادوں ،باتوںاور علمی نکات کی بارش اور آبشار مسلسل دل و دماغ اور آنکھ کے پردے پر برس رہی ہے لیکن اِن کو صفحہ قرطاس پر لانا ناممکن ہورہا ہے۔بہرحال حضرت فانی صاحب ؒدارالعلوم حقانیہ اور ادارہ ’’الحق‘‘ کا ایک بہت بڑا نادر اثاثہ تھا۔عرصہ دراز سے شوگر کے مرض میں مبتلا تھے،لیکن معمولات زندگی رواں دواں تھی،درس وتدریس ،نمازوں کیلئے آمدوروفت اور علمی ، ادبی اورشعری محفلوں کو سجانے والی تمام مصروفیات جاری وساری تھیں،کسی کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ یوں اچانک بادِ فنا فانی صاحب ؒ کو دارِ بقا کی جانب ہم سے چھین کر یکایک لے جائی گی۔ میں ربیع الاول میں حرمین شریفین کے سفر پر تھا جب افسوسناک اطلاع ملی کہ حضرت فانی صاحب پشاور کے ہسپتال میں داخل کرادئیے گئے ہیں۔اطلاع مل کر بے چینی بڑھ گئی اور جلد سے جلد پہنچنے کی سعی شروع کی۔ جب ہسپتال پہنچا تو فانی صاحب نے غنودگی اور آہ و زاری میں میرا استقبال کیا اور فرمایا کہ اتنے دن سے تمہارا انتظار کررہا تھا‘ کہاں رہ گئے تھے؟ او رمسلسل روتے ہوئے درد ناک وصیتی کلمات فرماتے رہے کہ یہ وصیت میں نے تمہارے