ماہنامہ الحق مارچ اپریل مئی 2014ء |
امعہ دا |
|
اضاخیل بالا سے آتے تھے۔راقم اس وقت سکول کے ابتدائی کلاس کے طالب علم ہونے کے ناطے حضرت باچاصاحب سے ناظرہ قرآن پڑھنے کی سعادت حاصل کی۔ ایک مرتبہ دادا جان حضرت شیخ الحدیث مولانا عبدالحق نور اللہ مرقدہ کی معیت میں اضاخیل باچا صاحب کی دعوت پرجانا ہوا ۔جہاں پر انہوں نے مدرسہ کی زمین پر جامع مسجد کا سنگ بنیاد رکھنا تھا۔اس موقع پر سینکڑوں علماء ‘ صلحاء کا مجمع لگا ہوا تھا‘ تو سب سے پہلے کم عمر ہونے کی حیثیت سے مجمع میں حضرت دادا جان ؒ اور حضرت باچا صاحب ؒ نے مجھے کھدائی کے لئے حکم فرمایا۔ پھر دوسرے نمبر پر حضرت دادا جان ؒ نے مسجد کی بنیاد رکھی۔ اور یوں باچا صاحب سے انس ومحبت کا یہ تعلق بڑھتا گیا جو تادم وفات قائم و دائم رہا۔ _________________________ باچا صاحب ہمار ے غمگسار اورمجھ ناچیز سے عشق کی حد تک محبت و شفقت کرنے والے، شریعت و طریقت میں میری رہبری و رہنمائی کرنے والے اورمصیبتوں ،تکالیف و بیماریوں میں صبر ، اللہ کی یاد میں اوالعزم رہنے کی تلقین کرنے والے صوفی ،جن کا دل سخاوت کے سمندر سے بھی بڑا تھا۔ جن کی جیبیں او ردسترخوان لنگر و خانقاہ ‘مدرسہ اور گھر چوبیس گھنٹے غریب و امیر کیلئے برابر کھلے اور بچھے رہتے ۔جن کے نرم و نازک نورانی ہاتھوں کے لمس سے ہرطرح کے جسمانی ،روحانی، ذہنی، معاشرتی امراض میں گرے ہوئے چھوٹے بڑے بوڑھے مرد و زن دل و دماغ یعنی اطمینان حاصل کرتے۔دھیما لہجہ، نرم رازداری کی گفتگو،سادہ لٹھے کے کپڑے اور واسکٹ ، سفید عمامہ، کھلا چاک گریباں، سفید بڑی میلی مائل چادر اوڑھے ہوئے گھنی، لمبی داڑھی ،سنجیدہ خاموش ،پُرتبسم پُر نور چہرہ، پُراعتمادی سے مجلس میں کسی کو ہدایات دیتے تو اپنے قریب کرکے اُن کے کان میں گفتگو کا انداز بیان بھی دل سے نہیں نکلتا۔دائیں ہاتھ میں لمباعصا ، ٹخنوں سے اوپر چڑھی ہوئی شلوار،دبلے پتلے نازک پائوں، مسنون چمڑے کے سلے ہوئے سادہ کھسّے پہنے ہوئے ، نحیف جسم اور لمبے خوبصورت قد کے مالک پچھلے پندرہ سال سے آنکھوں کی بینائی بھی آپریشن سے کھو بیٹھے تھے، جس کی وجہ سے دونوں ہاتھوں سے شاگردوں اور مریدین ہروقت دائیں بائیں تھامے رہتے۔ کبھی سرپر صرف سادہ کپڑے کی ٹوپی پہنے ہوئے علما طلباء ‘حفاظ ‘معتقدین ومریدین بیٹوں بھتیجوں‘ نواسوں ‘پوتوں اور محبین کے جھرمٹ میں خاموش یا ہروقت دعاگو ،ذکر الٰہی میں مشغول ‘نمازوں و نوافل میں بیٹھے کھڑے تلاوت و واعظ اورنصیحت و دلجوئی یا کسی کی تیمار داری کی فکر میں مصروف طرز زندگی میں ان کے عجیب فنا فی اللہ شخصیت کے ہزاروں اوصاف دنیا کے سامنے آشکاراتھے ۔ ان کی موت کی خبر انتہائی المناک تھی، ۲۸؍فروری بروز جمعۃ المبارک کی صبح نماز کے بعد ان کا