ماہنامہ الحق مارچ اپریل مئی 2014ء |
امعہ دا |
|
مالک تھے۔اللہ تعالی نے آپ کو قوی حافظہ اور بیش بہا صلاحیتوں سے نوازا تھا۔علوم و فنون میں یکساں مہارت رکھتے تھے۔دارالعلوم حقانیہ میں تقریبا ہر فن سے متعلق کتب آپ کے زیر درس رہیں۔تصنیف وتالیف میں ملکہ حاصل تھا چار زبانوں کے فی البدیہ شاعر تھے۔پشتو،اردو،عربی اور فارسی پر یکساں عبور رکھتے تھے۔ مختلف موضوعات پر آپ کے کئی مقالے اور مضامین اخبارات اور رسائل کی زینت بن چکے ہیں،آپ کے علمی،تحقیقی شہ پارے اور چار زبانوں میں شعری مجموعے کتابی شکل میں منظر عام پر آچکے ہیں۔ آپکی علمی،ادبی،تصنیفی،تحقیقی کاوشوں اور فن خطابت کو دیکھ کر امام الہند مولانا ابوالکلام آزاد کی یاد آتی ہے،آپکی فکر شاہ ولی اللہ،عبیداللہ سندھی،شیخ الہند اور حضرت مدنی کی یاد دلاتی ہے،مسند حدیث پر اپنے عظیم والد کے حقیقی جانشین نظر آتے ہیں،ادبیات و لسانیات میں ابو الحسن ندوی،علامہ اقبال،احمد فراز،خوشحال خان خٹک اور عبد الرحمن بابا کی جھلک دکھائی دیتی تھی۔ اعتدال پسندی اور میانہ روی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔تواضع،عاجزی اور انکساری کا پیکر تھے،انتہائی شفیق اور طلبا سے خندہ پیشانی سے پیش آتے تھے،نادار اور ضرورتمند طلبا کی مالی معاونت بھی فرمایا کرتے تھے۔ عیدین پر اپنے محلے کی تاریخی جامع مسجد میں خطبہ بھی دیا کرتے تھے۔تین سال تک آپ نے مفتی اعظم محمد فرید نوراللہ مرقدہ کی نگرانی میں افتا کی تمرین کی۔چاروں فقہی مذاہب کا وسیع مطالعہ رکھتے تھے۔مہمانوں سے فراغت ملتی تو راقم کی آپ کے ساتھ خصوصی نشست کافی دیر تک چلتی۔اور مختلف موضوعات زیر بحث آتے۔جمہور کے ساتھ چلتے ہوئے اپنی الگ مجتہدانہ اور مدلل رائے بھی رکھتے تھے۔لیکن عام نشستوں میں اسکا اظہار نہیں فرماتے تھے۔ عظیم علمی خانوادے کا یہ چشم و چراغ کہنہ مشق مدرس مفسر قرآن محدث العصرفقیہ ملت محقق دوراں شاعر فی البدیہ ادیب باکمال مصنف اور خزینہ علم و دانش 25 اور26 فروری2014 کی درمیانی شب ہمیشہ ہمیشہ کیلئے ہمیں الوداع کہہ گیا۔ ٭ ٭ ٭ کوچے میں پڑے ہیں ترے عشاق ہزاروں بس ان میں ترا فانیؔ دلگیر نمایاں (فانیؔ)