ماہنامہ الحق مارچ اپریل مئی 2014ء |
امعہ دا |
|
کے صاف ستھرے مزاج کا ایک انوکھا و دل فریب حصہ تھا۔استاذ جی شعراء کے حلقے میں، موت کے بعد والی زندگی کی طرف ’خاموش اشارے‘ کی حیثیت رکھنے والے شعری نام ’’فانیؔ‘‘ کے تخلص سے جانے جاتے تھے۔آپ زمانۂ طالب علمی ہی سے اردو ، عربی، پشتواور فارسی زبان میں اپنا اظہارِ ما فی الضمیر اشعار کی صورت فرمایا کرتے تھے۔کوئی بھی شخص آپ کے زرخیز دماغ کی سوہنی دھرتی میں جنم لینے والے درخشاں اشعار پڑھ کر ہی اندازہ کر سکتا ہے کہ ان میں کتنی سلاست ، روانگی اور پُرکیف معنویت پائی جاتی ہے۔ آپ رحمہ اللہ کے شاہکار مضامین اوردل دار ،اشعار مختلف زبانوں میں زمانۂ طالبعلمی ہی سے اب تک اندرون و بیرون ملک کے مؤقر اخبارات و جرائد کے وقار ، مرتبے اور زینت میں اضافے کا سبب بنتے چلے آرہے ہیں۔ چار زبانوں میں نہ صرف عبور رکھنا، بلکہ دنیائے شعروسخن کی زمین میں اپنا باذوق شعری گھوڑا سرپٹ دوڑانا ،استاذ جی فانیؔ صاحب رحمہ اللہ ہی کی وہ خصوصیت تھی، جو انہیں اللہ رب العزت کی طرف بہ طور عطیہ عنایت فرمائی گئی تھی ۔ شاعری میں استاذ جی کی پسندیدہ شخصیات:اردو و فارسی کے علامہ اقبال اورپشتو کے رحمان بابا تھیں ۔ وہ اپنے آپ کو رحمان بابا اور علامہ محمد اقبال کا روحانی بیٹا باور کیا کرتے تھے۔ رحمان بابا اور علامہ اقبال رَحِمَہُمَا اللّٰہٗ کے سیکڑوں اشعار آپ کی نوکِ زباں پر ہردم مچلتے رہتے تھے۔ چناںچہ جب بھی ان کا تذکرہ ہوتا، تو استاذ جی اپنے مخصوص طرزِ سخن میں ان کی مدح۔۔۔ ایسی شخصیات کے رُوپ میں فرمایا کرتے تھے، جو اپنے فن میں کمال رکھنے کے باوصف اپنے چاہنے والوں کے دلوں پر حکمرانی کیا کرتی ہیں۔ استاذ جی نور اللہ مرقدہ تاریخ سے بھی بہت دل چسپی رکھتے تھے ۔آپ ایک بہت ہی اچھے تاریخ دان بھی تھے۔ یہی وجہ رہی ہے کہ استاذ جی کے اشعار کا کثیر حصہ۔۔۔ ہماری تاریخ پر مشتمل ہے۔ آپ کو اپنے اکابرین سے دلی وابستگی اور محبت۔۔۔ والہانہ عشق کی حد تک تھا۔ استاذ جی کی بے تکلف مجلس میں اکابر دیو بند کا بھی بہت تذکرہ رہتا تھا اور نادر و نایاب معلومات کا ایک وسیع دریا بہتا رہتا تھا۔ اردو، عربی ، فارسی اور پشتو زبان میں دیو بند اور اکابر دیوبند پر استاذ جی نے بہت زیادہ نظمیں ، اشعار اور مرثیے کہہ رکھے ہیں ۔ فانیؔ صاحب کے شاگرد اور خادمِ خاص برادرم مفتی شوکت علی حقانی صاحب ،جو اکثر سفر میںاستاذ جی کے ہم راہ رہا کرتے تھے، تذکرہ فرماتے ہیں کہ: ’’استاذ جی بار بار یہ ارادہ فرماتے اور ان کی دیرینہ تمنا تھی کہ دنیا بالخصوص ہندوستان اور پاکستان میں جہاں جہاں اکابر مدفون ہیں۔۔۔ ان کی قبروں پر حاضری دوں گا۔‘‘ استاذ جی نے اپنی پُرنور حیاتِ مستعار میں اگرچہ ایک بار حج کیا تھا، مگرخانۂ خدا کی زیارت کا شوق اور اُلفتِ مصطفی کی تمازت کا سرور، اُن کے سینۂ مبارک میں پنہاں ہونے کی وجہ سے وہ بار بار سرزمینِ حجاز جانا اپنے لیے دنیا و مافیہا کی انمول نعمتوں سے بھی زیادہ بہتر سمجھتے تھے۔ یقینا یہ فانیؔ صاحب کے عشقِ رسول کی وہ موجیں ہیں، جو اُچھل اچھل کر ساحل ِ مدینہ کو بوسہ دینے کے لیے بے تاب اور مضطرب رہتی تھیں۔ آپ نے اِسی محبت و چاہت کے