ماہنامہ الحق مارچ اپریل مئی 2014ء |
امعہ دا |
|
حضرت شیخ الحدیث ؒ میرے لئے پہلے قسم کے ہمدردوں میں تھے‘ ان کی خصوصیات ‘ کمالات او رخدمات کا ایک مختصر سے مضمون میں احاطہ کرنا مشکل نہیں بلکہ ناممکن ہے‘ حضرت ؒ سے محبت کی بناء پر چند نقوش زیب قرطاس کرتا ہوں‘ یہ بات مقبول ومسلم ہے کہ جو بھی انسان اس دنیا میں آیا ہے بالآخر یہاں سے رخصت ہونا ہے اور مصر محب کو اپنے محبوب سے جدا ہونا ہے‘ ابوالطیب المتنبی کہتا ہے۔وقد فارق الناس الاحبۃ قبلنا واعی دواء الموت کل طبیب سبقنا الی الدنیا فلوعاش اھلھا منعنا بھا من جیئۃ وذھوب تملکھا الاتی تملک سالب وفارقھا الماضی فراق سلیب او رحضرت کعب بن زہیر ؓ فرماتے ہیں :وکل شخص وان طالت سلامتہ یوماً علی الۃ صدباء محمول اور جو بھی انسان اس دنیا سے رخصت ہوتا ہے‘ توان کے متعلقین کو صدمہ ہونا بھی ایک فطری امر ہے مگر بعض عالی اشخاص ایسے بھی ہوتے ہیں جن کا صدمہ خاندانی دائرہ میں نہیں ہوتا۔ بلکہ قومی اور عالمی سطح پر محسوس کیا جاتا ہے ‘ وہ اس شعر کا مصداق ہوتے ہیں۔وکانا قیس ھلکہ ھلک واحد ولکنہ بنیان قوم تھدما شیخ الحدیث ابراہیم فانی صاحب ؒایسی ہی جامع شخصیت تھے‘ تواضع اور للہیت ‘ تقویٰ اور پاکبازی میں سلف کا نمونہ تھے۔ علوم وفنون اور تصنیف میں کافی مہارت رکھتے تھے اور شعر و شاعری میں آپ کو ایک خاص کمال حاصل تھا۔ اردو ‘ فارسی ‘ عربی اورپشتو چاروں زبانوں کے قادرالکلام شاعر تھے۔ شعر وشاعری میں وہ شاعر کے اس قول کا مصداق تھے۔ قرنھا بایدکہ تایک مرد حق پیدا شود بایزید اندر خراسان یا اویس اندر قرن سالہا باید کہ تا یک سنگ اصلی ز آفتاب لعل گردد دربدخشاں یا عقیق اندریمن دارالعلوم حقانیہ کے ساتھ عقیدت اوراحترام آپ میں کوٹ کوٹ کر بھرا ہواتھا۔ ساری عمر دارالعلوم کی خدمت میں بسر کردی‘ مختلف مدارس سے درس وتدریس کی پیشکش ہوئی تھی‘ لیکن آپ نے قبول نہ کیا۔ اوریوں فرمایا کہ میں اپنی مادر علمی کے ساتھ بے وفائی کا تصور بھی نہیں کرسکتا اور تادم مرگ اسی پر قائم رہے اوراس شعر کے مصداق ٹھہرے۔ زمانہ معترف ہے اب ہماری استقامت کا نہ ہم نے شاخ گل بدلا نہ ہم نے آشیانہ چھوڑا جب میں بتقدیر الہی بندہ دارالعلوم تدریسی خدمات سرانجام دینے کے لئے آیا۔ تو آپ سے