ماہنامہ الحق مارچ اپریل مئی 2014ء |
امعہ دا |
|
مڈل کا امتحان پاس کرنے کے بعد چونکہ ہمارے گاؤں میں اس وقت تک ہائی سکول نہیں بنا تھا نویں اور دسویںکلاس کے لیے گورنمنٹ ہائی سکول ٹوپی یا سکول مرغز لڑ کے جایا کرتے تھے۔ حضرت والد صاحب مرحوم دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک میں صدر مدرس تھے۔ اس لیے انہی کے ایماء پر بندہ نے گورنمنٹ ہائی سکول اکوڑہ خٹک میں داخلہ لیا، یہاں پر نویں جماعت پاس کی اور دسویں جماعت میں سہ ماہی امتحان کے بعد واپس گاؤں آیا اور ٹوپی کے ہائی سکول میں داخلہ لیا اور وہاں سے ۱۹۷۰ء میں میٹرک کا امتحان پاس کیا، میٹرک کے بعد دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک میں داخلہ لیا اور ساتھ ساتھ حفظ القرآن میں بھی مشغول رہا۔ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے درسِ نظامی کے ساتھ بندہ نے قرآن پاک حفظ کیا۔ ۱۹۷۸ء میں درسِ نظامی سے فراغت کے بعد دوسرے ہی سال دارالعلوم حقانیہ میں بحیثیت مدرس بندہ کا تقرر ہوا اور صرف و نحو و منطق اور ادب کی مختلف کتابیں تفویض ہوئیں۔ شعر و شاعری اور ادب کے ساتھ شوق ابتداء ہی سے تھا ابتداء میں اپنی مادری زبان پشتو میں شاعری کرتا رہا اور اسی طرح فارسی میں بھی طبع آزمائی اور تک بندی کی کوشش کی۔ زمانۂ طالب علمی میں بعض غزلیں پشتو رسائل اور مجلات میں چھپتی رہیں اور ساتھ ساتھ اپنی دانست میں اہم مفید مضامین کے تراجم کرتا رہا اسکے بعد وقتا فوقتا ملک و بیرون ملک کے مختلف جرائد اور اخبارات میں راقم کے مضامین آتے رہے ۸۳ء میں طبیعت اردو شاعری کی طرف مائل ہوگئی اور پھر اردو میں طبع آزمائی شروع کی۔ چنانچہ ماہنامہ ’’الحق‘‘ اکوڑہ خٹک ، ماہنامہ’’الخیر‘‘ملتان، ’’خدام الدینـ‘‘ لاہور، ’’ترجمان اسلام‘‘ لاہور، ’’بینات‘‘کراچی، ’’النصیحہ‘‘ چارسدہ اور دیگر اخبارات و رسائل میں راقم کی نظمیں اور غزلیں شائع ہوتی رہیں۔ عمومی طور پر ان نظموں اور غزلیات کو پذیرائی حاصل ہوئی، علاوہ ازیں عربی شاعری میں بھی مشق جاری رہی، چنانچہ بندہ کا عربی مرثیہ جوکہ حکیم الاسلام قاری محمد طیب صاحب قاسمی قدس سرہ مہتمم دارالعلوم دیوبند کے سانحہ ارتحال پر لکھا گیا تھا۔ وہ جب ماہنامہ ’’الحق‘‘ میں چھپا تو’’الحق‘‘ ہی سے وہ مرثیہ دیوبند کے عربی ماہنامہ’’الثفافہ‘‘ میںشائع ہوا۔ حضرت والد صاحب مرحوم کے سانحہ ارتحال کے بعد اکثر احباب کا تقاضا ہوا کہ ان کی سوانح عمری اور حالات زندگی پر ایک کتاب مرتب ہونی چاہیے ۔ چنانچہ راقم نے ایک ضخیم کتاب’’حیات صدرالمدرسین‘‘کے نام سے مرتب کی۔ کتاب کی افادیت کے پیش نظر وزارتِ تعلیم صوبہ سرحد نے سکولوں اور کالجوں کی لائبریریوں کے لیے منظوری دی ہے۔ دیگر تالیفات میں ’’افادات حلیم‘‘ جس کی دوسری اشاعت مزید اضافوں کے ساتھ طبع ہوچکی ہے۔ یہ کتاب بھی صوبہ سرحد کے سکولوں اور کالجوں کی لائبریریوں کے لیے وزارتِ تعلیم صوبہ سرحد نے منظور کی ہے۔