ماہنامہ الحق مارچ اپریل مئی 2014ء |
امعہ دا |
|
اربابِ فضل وکمال ، اہل قلم اور اصحابِ نظر آپ کے علم وعمل کے مختلف میدانوں میں آپ کے افکار وخدمات کا جائزہ لیں گے ، لیکن ان معنوں میں آپ کی ذاتِ گرامی ایک ذات تھی کہاں؟ آ پ کا وجودِ مقدس وگرامی، مرتبتِ علم وادب ، فکر ونظر ،مذہب وسیاست ، ایثار وعمل ، جہاد وعزیمت ، اخلاق وسیرت اور علوم وفنون کے مختلف دبستانوں کا ایک دبستان اور سینکڑوں انجمنوں کی انجمن تھا ۔آپ کی دعوت کا آغازِ کار سے لے کر آج تک مسندِ درس وتعلیم اور ذوقِ عمل کی تربیت سے لے کر میدان جہادِ وعمل تک ، دعوت وتبلیغ اور مواعظِ رُشد وھدایت سے لے کر جہاد لسانی کے ملی وقومی میدانوں تک پھیلی ہوئی ہے ؎ تاریخ ترے نام کی تعظیم کرے گی تاریخ کے اوراق میں تو زندہ رہے گا حضرت فانی صاحب ؒ ’’ علم وعمل ، دردومحبت ، شوق ومطالعہ اور جذبہ جہاد وشہادت‘‘ کے ساتھ’’ اتباعِ سنت، احترامِ شریعت ، علومِ نبوت‘‘ اور درسِ حدیث کے ساتھ عشق ووارفتگی کا جیسا نمونہ ان کی زندگی میں ملتا ہے، وہ اگر نایاب نہیں ، تو کمیاب ضرور ہے ۔ علاوہ ازیں حضرت کی زندگی میں فنائیت اور زہد واستغناء کے ایسے مؤثر واقعات ملتے ہیں، جو زرپرستی کے اس دور میں تڑپا دیتے ہیں۔ آپ کی بے تکلفی ، سادگی اور رسم ورواج وتکلّفات سے آزادی ،ان کی عملی زندگی کا ایک منفرد اور نمایاں عنصر ہے ؎ ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ وَر پیدا آپ ؒ زندگی کے تمام میدانوں میں اپنی مثال آپ تھے۔ وہ بلاشبہ اُن ممتاز ، ذہین اور خدا رسیدہ لوگوں میں سے تھے جو اپنے ماحول سے اپنے امتیاز وانفرادیت کو منواکر سب کو اپنی تقلید پر محبور کرتے ہیں ؎ علمی و دینی ،مذہبی وسیاسی حلقے ان کے درس وتدریس اور عمومی وروحانی تربیت کے سلسلے میں ان کی بے نظیر صلاحیت وانفرادیت کا جس محبت، اخلاص، اعتقاد اور لذت و افتخار کے ملے جلے جذبات کے ساتھ ان کا تذکرہ کرتے ہیں ، اب بھی بھولی بسری یادوں کوا پنے کمزور حافظے کی سلوٹوں سے سمیٹ کر ، قلم کی نوک پر لانا چاہوں ، توراقم کے لئے ان کی عکاسی ممکن نہیں ؎ بہرکیف! قلوب ِ مجروحہ وشکستہ میں امیدکی کرنیں جاگ اٹھانے والا، پاس کو آس کے دامن میں مسکرادینے والا، محبتوں کے دوازے کھل کرہر ایک کو باریاب کرنے والا یہ خوشبویہ شگوفہ ۲۶ جنوری ۲۰۱۴ء کو گردوں کے اچانک انفکشن کی وجہ سے علیل پڑگئے ،اور مکمل ایک مہینے تک بندگی کی تمنا میں صحت کی آرزو لے کر سردآہوں میں پکار اٹھتے ؎ زندگی آمد برائے بندگی زندگی بے بندگی شرمندگی