ماہنامہ الحق مارچ اپریل مئی 2014ء |
امعہ دا |
|
دامن کبھی نہیں چھوڑا ۔ وہ ایسا عظیم مجاہد تھا ، جو زندگی بھر لڑتے رہے مگر ہاتھ میں تلوار کی بجائے قلم تھامے رکھا ، اکابر سے حددرجہ سے محبت رکھنے والا تھا ، فکرِ ولی اللہی اور نظر یہ شیخ الہند ؒ کا نمائند ہ جماعت ، جمعیت علماء اسلام کے ساتھ لیلیٰ ومجنون جیسا تعلق تھا۔ اتحاد امت کا عظیم علمبردار تھا ان کی ذات گرامی ایک جامع شخصیت تھی ۔ علمی دنیا میں طلبہ کرام کے مرجع تھے ادبی اور شعروسخن کی دنیا شعراء اورادیبوں کے استاد اور روحانی دنیا میں عوام الناس کے مرجع الخلائق کے مرتبے پر فائز تھے ۔ شکل وحلیہ : بادیٔ النظر میں حضرت کا اگر قلمی چہرہ یا حلیہ بیا ن کر تو یوں کہہ سکتا ہوں کہ ، معتدل جسم والا ، چمکتی ہوئی بلند پیشانی ، بلند ی کی طرف مائل ناک ، چہرے پر متانت ، ہر وقت ہونٹوں پر تبسم اور مسکراہٹ، اس شعر کا حقیقی مصداق تھا ؎ لہجے میں بانکپن تھا طبیعت میں تھا گداز ہونٹوں پر ہر گھڑی تھا تبسم سجا ہوا نرم مزاج اور اعلیٰ اخلاق کے مالک تھے جھکی ہوئی نظریں ، گندمی رنگ ، ہلکی اورپروقار انداز میں کھلتی ہوئی داڑھی ، بالائی ہونٹ پر بالکل باریک وپست مسنون مونچھیں ، گرمیوں میں سفید بنگالی ٹوپی ، سردیوں میں چترالی ٹوپی ، کبھی کبھی سفیدی عمامہ بھی باندھتے تھے ۔ ہاتھ میں عصا او رنظرکی عینک زیب عینین تھی ۔ پہلی مرتبہ سامنا کرنے والا ہی گمان کرتا کہ واقعی کوئی اللہ والا، نیک وصالح ، سنجیدہ وبردبار شخص ہے ۔ ستا دا خائست گلونہ ڈیردی جولئی مِ تنگہ زھ بہ کوم کوم ٹولومہ زہد وتقویٰ : حضرت نے ایک دفعہ فرمایا ! لو گ مجھے کہتے کہ کہ فانی صاحب ! مولانا فضل الرحمان صاحب آپ کا قریبی دوست ہے اور آپ کے ان کے ساتھ گہرے تعلقات ہیں ان سے آپ دنیا کا فائدہ کیوں نہیں اٹھاتے ؟ حضرت فانی صاحب ؒ نے فرمایا: میں جواب دیتا ہوں کہ اللہ نے مجھے پید اکیا ہے اور اللہ ہی میرے کام سنوارے گا مولانا فضل الرحمان صاحب کیا کرسکتے ہیں ۔ ان کے ساتھ اگر میراتعلق ہے وہ اپنی جگہ ہے اس کے ساتھ میرے جماعتی وابستگی ہے دنیا کی کاموں کی نہیں۔ ؎ اس دور میں بھی سود و زیاں سے تھا بے نیاز اخلاص اس کے دامنِ دل میں بھرا ہوا یقین جانئے ! کہ’’ ایم ایم اے‘‘ کے دور حکومت میں کئی وزوراء حضرت فانی صاحب ؒ کے بہت قریبی ساتھی تھے ، لیکن ان سے ایک روپیہ کا نہ سوال کیا اور نہ فائدہ اٹھایا ، زندگی میں کوئی گھر بنایا نہ گھر بنانے کی کوشش کی اور نہ فانی صاحب ؒ کی یہ کبھی خواہش رہی ۔