ماہنامہ الحق مارچ اپریل مئی 2014ء |
امعہ دا |
|
حضرت فانی صاحب رحمہ اللہ ابھی عالم میں تھے کہ اپنے عظیم والدِ متکلم عصر مولانا عبدالحلیم زروبویؒ اور اپنے نامور استادومربی ، مشفق ومہربان سرپرست شیخ الحدیث حضرت مولانا سمیع الحق مدظلہم العالیہ نے انکی نشأۃ وتربیت میں کوئی کسر نہ اُٹھارکھی کہ خدانے چاہا تو آگے چل کر وہ خانوادۂ حلیمی اور دارالعلوم حقانیہ کی عظمتوں کوقائم ودائم رکھ سکیں گے ۔ اس مثالی تعلیم وتربیت نے مرحوم کو آغازِ شباب ہی میں علم وادب کے میدان میں ایک بارآور درخت بنادیا ۔ اور اگریہ درخت اتنی جلدی بادِخزاں کے ہاتھوں یوں نہ اجڑ جاتا تو یقینا اور آگے چل کر شجرہ طوبیٰ بنتا ۔ مگر اللہ کی مرضی کے سامنے کس کی چل سکتی ہے ۔ حضرت فانی صاحب ؒ ۱۹۷۰ میں دارالعلوم حقانیہ سے وابستہ ہوگئے ۔ اور اس وابستگی کوآخری دم تک ایسا نبھایا کہ بڑے بڑے محرکات اور دواعی سے بھی ٹکراکردارالعلوم کی قوت لایموت اور کفاف پر قانع رہے اور تفسیر وحدیث اور فنون کی اعلیٰ کتابیں مثالی صلاحیت اور عبقری اندازمیں پڑھاتے رہے ۔ اس دوران اپنے ہزاروں تلامذہ کو مستفید فرماتے ۔ پچھلے تیس سالوں سے مؤطائین اور طحاوی جیسی اہم کتابوں کی تدریس آپکے ذمہ ہوگئی تھی۔جب دور حدیث کی کتابیں ان کی سپرد کردی گئی تو فرمایا کہ یہ بھی بڑوں کا اعتماد اور حسنِ ظن تھا حالانکہ میں اس قابل نہ تھا ۔ حضرت کواللہ تعالیٰ نے عجیب وغریب صلاحیتوں سے نوازا تھا۔ دینی دردوحمیت عصر حاضر کے مغربی اور لادینی افکار ومسائل پر گہری نظر، وسعتِ فکر ، حاضر جواب اور پھر اس کے ساتھ ساتھ عربی ، فارسی ، اردو، پشتو کے قادرالکلام شاعر تھے۔ ان زبانوں میں کئی قصائد ، غزلیں ، مراثی زمانہ طالبِ علمی سے لکھتے رہے ۔ گویا حضرت فانی صاحب دیوبند ثانی میں علم وادب کے میدان میں شیخ الادب حضرت محمد اعزاز علی رحمہ اللہ کے ہم مثل تھے ۔ اور اسی طرح علوم وفنون میں کامل دسترس رکھتے تھے ۔علمی مزاج متکلمانہ اور فلسفیانہ تھا ہرزیربحث مسئلہ کی عجیب تنقیح فرماتے اور جچے تلے انداز میں موضوع کی تحلیل اور تجزیہ کرتے اور درس کا توانکو ملکہ تامہ حاصل تھا ۔ گھنٹہ بھر کی درس آدھے گھنٹہ میں دے دیتے اور طلبہ کو مطمئن کرتے ۔ درس کے دوران ایسالگ رہا تھا کہ کوئی لکھا ہوا مقالہ سنارہے ہیں۔ کلام حشوزوائد اور تکرار سے پاک رہتاتھا۔ طبیعت میں جمال کے ساتھ ساتھ جلال بھی بھر پور تھا ، حمیت حق کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی ۔ اگر کسی نے اضمحلال دین کا کوئی نقشہ پیش کردیا تو بے حدبے چین ہوجاتے ۔ دارالعلوم حقانیہ ، مولانا سمیع الحق، مولانا فضل الرحمن ، مولاناراشد الحق کے خلاف بات کرنے کو بھی برداشت نہ کرتے تھے ۔ عوامی زندگی سے گریزاں ، مگر علماء اور طلباء کے علمی اور ادبی محفلیں پسند فرماتے تھے ۔ انتہائی کم گولیکن جب بات کرتے تو موتیاں بکھیرتے ۔ دارالعلوم حقانیہ کے بانی مبانی سے لے کر اس کے شجر وحجر اور ادنیٰ مشاغل میں منہمک رہتے ۔ موجودہ علمی زوال اور طلبہ کے علمی انحطاط پر بیحد افسردہ تھے اور اس بارے میں وفاق المدارس العربیہ کے نصابی کمیٹی کو ہمیشہ خطوط لکھتے ۔ درس میں ہمیشہ طلبہ کو ہر لحاظ سے دارالعلوم حقانیہ اور اپنے اساتذہ سے وفاداری اور