ماہنامہ الحق مارچ اپریل مئی 2014ء |
امعہ دا |
|
میں زیورِ طبع سے آراستہ نہ ہوسکے، ع و کم حسرات فی بطون المقابر جب کہ حضرت والد صاحب رحمہ اللہ کاشعری اور نادرپشتو غزلوں کا مجموعہ ابھی ابتدائی مراحل طے کررہا ہے،جس کے بارے میں والدصاحب نے خود فرمایا تھا: پہ سلگو سلگو بہ جاڑی پرے درویشہؔ سوک چہ گوری دا پُرسوز دیوان زما اوخکی ئے پہ مخ خورے ورے بہ زی اؤری اے درویشہؔ چہ گفتن زما کاش’’دردِ پنہاں کا یہ مقفل خزینہ‘‘ بھی حضرت والد صاحب کے دیرینہ ا ور قلبی وجگری دوست حضرت فانی صاحب کی حیاتِ مستعار میں چھپ کر منظرِ عام پرآجاتا مگر: زما اؤ ستا چہ پرے وعدہ وہ بیگا پہ ھغہ زائے کی اور اولگیدنہ ما کل ما یتمنی المرء یدرکہ تجری الریاح بما لا تشتھی السفن حضرت والد محترم رحمہ اللہ کے سانحۂ ارتحال کے بعد بندہ کاتقریباً14 سال حضرت فانی صاحب سے خط وکتابت اور بذریعۂ ٹیلی فون رابطہ رہا مگر شومئی قسمت کہ مجھے ان کی زیارت وملاقات کا شرف حاصل نہ ہوسکا ،فآھا ثم آھا ثم آھا۔ نن بیاد ڈیرے بے وسیٔ پہ ژبہ حٔما دَ عمر حسرتونہ خاندی بندہ کازمانۂ طالب علمی سے حضرت فانی علیہ الرحمۃ سے خط وکتاب کا سلسلہ جاری تھا اور باقاعدہ ان کی طرف سے محبتوں اور شفقتوں بھرا محبت نامہ بصورتِ جوابِ آں غزل موصول ہوتاتھا،چونکہ حضرت والد محترم کی وفات کے فوراً بعد سے یہ سلسلہ جاری ہوا تھا توان کے خطوط اور جوابی گلدستے باعثِ تسکین ِ قلبِ جریح اور تشجیع وتسلی کا سبب بنتے : ع: آہ ! کتنے حسین خواب تھے سوچاکریں گے ہم جب بھی انکاگلدستہء خط وصول پاتاتو لبوں پر اپنے والد رحمہ اللہ کی غزل کا یہ مصرع رقصاںہوجاتا: ستا دَ وصل تحفہ مالہ دَ صبا پہ لاس بیا راغلہ لیکن گورہ سہ کم نہ وؤ لا غمونہ پخوانی سالِ عیسوی 2008ء کے بالکل آخری دن یعنی 31دسمبر کو بوقت عشاء پہلی بار ان سے ٹیلی فون پر گفتگو کا شرف حاصل ہوا ،بہت ہی مسرور ہوئے،دعائوں سے نوازا،اور جب ٹیلی فون کا سلسلہ بڑھا اور خط وکتابت معدوم ہوتاگیا تو بہت ہی شفقتوں سے کئی بار ٹیلی فون پر فرمایا کہ آپ کے خطوط آنا کیوں بند ہوگئے؟ یہ ان کی شفقت تھی کیونکہ فون پر اتنی طویل باتیں نہ ہوتیں مگر خط وکتابت میں کافی امور پر تبصرہ وتجزیہ سامنے آجاتااور بندہ ان سے راہنمائی حاصل کرتا،افسوس کہ آج وہ صاحب ِقلم اور مشفق ومہربان نہ رہا۔