ماہنامہ الحق مارچ اپریل مئی 2014ء |
امعہ دا |
|
۱۹۸۳ء میں آپ کی طبیعت اردو شاعری کی طرف مائل ہوگئی اور اردو میں نظمیں اور غزلیں لکھنا شروع کیں جو ماہنامہ ’’الحق‘‘ ، ’’الخیر ‘‘ ملتان، ’’خدام الدین ‘‘لاہور،’’بینات‘‘ کراچی، ’’ النصیحہ‘‘ چارسدہ اور دیگر اخبارات و رسائل میں شائع ہوتی رہیں۔ عربی میںبھی شاعری کرتے ہیں۔ چنانچہ آپ کا عربی مرثیہ جو حکیم الاسلام قاری محمد طیب قاسمیؒ مہتمم دارالعلوم دیوبند کے سانحہ ارتحال پر لکھا گیا تھا۔ جب ماہنامہ الحق میں چھپا تو الحق ہی سے وہ مرثیہ دیوبند کے عربی ماہنامہ ’’الثقافہ‘‘ میں شائع ہوا۔ غرض فانیؔ صاحب چاروں زبانوں کے قادر الکلام شاعر ہیں۔ اب تک آپ کے نظموں‘ غزلوں وغیرہ کے کئی مجموعے منظر عام پر آچکے ہیں۔ان کے اشعار کا رشتہ روایت سے اور جدیدیت سے بھی مضبوطی کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔ ان کے اشعار میں دردو کرب کی کیفیت کے ساتھ ساتھ سوزوگداز کا عنصر بھی بدرجہ اتم موجود ہے جس نے فانی صاحب کی شاعری کو پرکشش بنا دیا ہے جو قاری اور سامع کے دل میں گھر کر جاتا ہے۔ ان کے اشعار میں فکر انگیزی ہے جو پڑھنے والے کو دعوت فکر دیتی ہے۔ نالہ زار: یہ آپ کے اردو کلام کا مجموعہ ہے جس کے متعلق پروفیسر محمد افضل رضا لکھتے ہیں : ’’ ویسے تو جناب فانی صاحب کے پشتو‘ اردو ‘ فارسی اورعربی شاعری کے نمونے میری نظروں سے ماہنامہ ’’الحق‘‘ کے صفحات پر گزرے تھے لیکن ان کی اردو شاعری کا یہ پہلا مجموعہ پہلی دفعہ مطالعہ کرنے کا موقع ملا…اردو کے مشہور شاعرفانی بدایونی کا کلام تو اردو وادب کے ایک ادنی طالب علم کی حیثیت سے پڑھا لیکن پشتون فانی کا یہ مجموعہ اردو زبان میں مطالعہ کرنے کے بعد اس نتیجہ پر پہنچا کہ فانی (جن کی مادری زبان پشتوہے) جہاں فارسی ‘ عربی زبانوں پر دسترس رکھتے ہیں‘ وہاں اردو میں بھی وہ نہایت روانی اور آسانی سے شگفتہ انداز میں واردات قلبی اور معاملات حسن و عشق‘ احساس محرومی ‘ غم جاناں اورغم دوراں کو سپرد قلم کرسکتے ہیں۔ آپ کی نظموں اور غزلوں میں جو بیساختہ پن اور روانی ہے وہ دوسرے پشتون شعراء کی اردو شاعری میں شاید آپ کو کم ہی ملے۔ فانی اپنے دل کی بات دوسروں کے دلوں تک پہنچانے کا فن جانتے ہیں۔ فانی صاحب کی شاعری میں خوب صورت نظمیں بھی ہیں اور غزلیں بھی نظموں کے خوب صورت عنوان اور دل فریب موضوع پڑھنے والوں کو ایک لمحے کے لیے بھی اپنا دھیان ہٹانے نہیں دیتے۔ جذبوں میں سادگی کا عنصر بہت زیادہ ہے جو پڑھنے والوں کو اپنے حِصار میں لیے رکھتے ہیں۔اسکی شاعری کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ اس نے اپنے فن سے انصاف برتا ہے وہ اپنے جذبات اور محسوسات کی بلا تکلف ترجمانی کرتے ہیں ۔ان کے اشعار میں ان کی طبیعت اور مزاج کی حقیقی جھلکیاں ملتی ہیں، ان کی شاعری میں حزن و ملال کی جو دھیمی دھیمی آنچ محسوس ہوتی ہے۔ یہی ان کی صداقت اور یہی اسکا اعتبار ہے۔ پروفیسر محسن احسان کتاب کے تعارف میں تحریر فرماتے ہیں :