ماہنامہ الحق مارچ اپریل مئی 2014ء |
امعہ دا |
|
چھپ گئی ہے ۔ اگر یہ واقعہ سند کے لحاظ سے درست ہو تو صرف کوٹھا اور صوابی ہی نہیں اس اعزاز اور فخر میں پورا ملک شامل ہے ۔ اُولئک آبائی فجئنی بمثلھم اذا جمعتنا یا جریر المجامع علم اُن کی طبیعت ثانیہ بن چکی تھی ان کی ہر مجلس کا آغاز بھی کسی علمی گفتگو پر ہوتا اور اختتام بھی ، یہ کوئی مبالغہ نہیں ، حقیقت یہ ہے علم اس کا حال بن گیا تھا ۔ ہمیشہ پست آواز میں نرم لہجہ اور مسکراتا ہو اچہرہ اب بھی آنکھوں کے سامنے گھوم رہا ہے ، کلاس میں ایک دفعہ جمعرات کے دن بہت سارے طلباء نے چٹ لکھے ۔ کلا س میں ایسی چٹوں پر عموماً سبق کے متعلق کوئی شکل یا اعتراض ہوتا استادجی ایک ایک چٹ پڑھتے رہے …… لیکن یہ کیا…… ہر چٹ پرایک ہی بات ’’کوئی شعرارشاد ہو‘‘ استادجی نے چٹوں کو جمع کرکے پھاڑ دیا ، اچھلتے ہوئے طلباء کی طرف پھینکا اور فرمایا درس ہے مشاعرہ نہیں ۔ ؎ کتنے شریں ہے تیرے لب کہ رقیب گالیاں کھا کے بے مزہ نہ ہوا اردو فارسی اور پشتو کے بہترین ادیب تھے ۔ پشتو شاعری میں ،’’ ازغی دتمنا ، ویرژن تصورات، اور بیا در دونہ پہ خندادی ‘‘پشتو ادب میں قابل قدر اضافہ ہے جسے انشاء اللہ مدتوں یادرکھا جائے گا، اردو میں آپ کے مرثیے ،’’ داغہائے فراق ‘‘ کے نام سے کئی سال ہوئے چھپ گئی ہے اور اپنے قارئین کا ایک وسیع حلقہ بنادیا ہے، آپ کے والد گرامی صدر المدرسین پر ایک انتہائی علمی اور تاریخی دستاویز بھی آپ کے قلم کا شاہکار ہے ، آپ کی زندگی کی آخری نظم ’’ماہنامہ الحق‘‘ میں داستان دلکشاء درزمان ،ابتلاء ‘‘کے نام سے شائع ہوئی اور اس کے بعد آپ کا قلم ہمیشہ کیلئے خاموش ہوگیا ، مولانا فانی صاحب نے اپنی مستعار زندگی کے لمحات پورے کرلئے اور دنیا سے رخصت ہوگئے اپنی زندگی سے انہوں نے علمی دنیا کو جو سبق دیا وہ یہ ہے کہ علم دین کے طالب علموں کو اس وقت جن چیلنجوں کا سامنا ہے اس کے لئے سطحی اور سری انداز نہیں بلکہ ٹھوس اور مضبوط علم حاصل کرنا ہوگا، قلم اور کتاب سے تعلق کا حال یہ ہو۔ ؎ لیلیٰ بھی ہمنشین ہوتو محمل نہ کر قبول اللہ ان کی قبر کو نور سے بھر دے ، پسماندگان کوصبر جمیل عطا فرمائے ۔ ٭ ٭ ٭ کس طرح ٹوٹے گا یا رب حلقہ زنجیر غم آتشیں نالوں سے میرے وہ پگھل سکتا نہیں (فانیؔ)