ماہنامہ الحق مارچ اپریل مئی 2014ء |
امعہ دا |
|
انداز ہوتا سیدھا مسند پر جاتے کسی کو دیکھے بغیر متعلقہ جگہ سے درس کا آغاز ہوتا، درس کیا ہوتا…اللہ اکبر…نسیم وصبا قربان ہونے کے لئے مچلتے ، مشکل ترین جگہوں کو چٹکلیوں میں حل کرنے کا جیسے آپ کو دودھ پلایا گیا ہو۔ خشک مباحث کو اپنی طبعی ظرافت سے ایسا رنگین بناتے کہ کبھی بوریت کا احساس نہیں ہوتا ، دوران درس اپنے تخلیقی اشعار بھی سناتے جس سے ماحول کشت وزعفران بن جاتا ، واہ واہ کے نعرے بلند ہوتے ، خوشی اور سرور میں ایک دوسرے پر کودنے اور لوٹنے پوٹنے کا ماحول بن جاتا۔ ہمارے ہاں مدارس میں استاد کے سامنے بیٹھنے کا ایک خاص دائرہ ہوتاہے جس سے تجاوز کی اجازت نہیں ہوتی ، اس معاملے میں فانی صاحب کو بالکل جداپائے ان کے ہاں ایسا کوئی ضابطہ نہیں دیکھا ، کھل کر اظہار خیال کا موقع دیا جاتا، طالب علم کی تنبیہ ہوتی تو وہ بھی کسی لطیفے کے ضمن میں ، یا شعر کے چٹکی سے ، میرے ساتھ بھی یہی ہوا۔ منطق کی کتاب قطبی میں دلالت مطابقی اور تضمنی کے بحث میں مصنف نے توسط کی قید لگائی ہے ، مجھے اُس میں ابہام پیدا ہوا اور خیال گزرنے لگا یہ قید نہیں لگانی چاہئے تھی ……خیر میں نے ایک چٹ پر اپنا سوال لکھا ، استادجی نے چٹ پڑھی کتاب سے نگاہ اُٹھا کر طالب علموں کی طرف دیکھ کر میرے سوال کے بارے میں لطیفہ سنایا، فرمایا حجام کے پاس کوئی شخص بال منڈوانے بیٹھ گیا تو حجام سے کہنے لگا یہ بتاؤ میرے سر پر کتنے بال ہونگے ۔ حجام نے کہا بس تھوڑا ساانتظار ……اب بال تیری جھولی میں پھینک دونگا خودگن لینا ، فرمایا جو سوال چٹ پر لکھا گیا ہے دوتین دن بعد اُس کا جواب آرہا ہے ، مولانا فانی کے طنزومزاح کا اپنا منفرد انداز تھا آپ کا ڈھنگ ڈول دیکھ کر یہ اندازلگانا قطعاً مشکل تھا کہ یہ درویش خدامست اور فقیر انسان جامعہ حقانیہ جیسی یونیورسٹی کے استاد حدیث ، بیک وقت چارزبانوں پر عبور اور ان پر قابل قدر مجموعہ کلام ، کئی علمی کتابوں کے مصنف ، مورخ ، سوانح نگار اور اعلیٰ درجہ کے مدرس ہے ۔زمانہ طالب علمی میں اس فقیر کواللہ تعالیٰ نے حضرت کی صحبت میں بیٹھنے اور موتیاں چننے کا موقع نصیب کیا ، ظہر کے بعد حضرت کے دولت کدے پر حاضر ہوتا ، دروازے کو دستک دیتا مولانا خود آکر دروازہ کھولتے ، اور میں حضرت کی باتوں کا رخ کسی موضوع کی طرف موڑ دیتا ان کی معلومات میں سمندر کی سی گہرائی تھی ، غضب کا حافظہ لائے تھے ۔ ایک دفعہ میں نے ہندوستان کے مشہور عالم ابوحنیفہ ہندعلامہ عبدالحی لکھنوی ؒ کے بار ے میں پوچھا، اس دن مجلس کا موضوع مولانا عبدالحی لکھنویؒ تھے ۔ خاندانی پس منظر ، علمی منازل کا ارتقاء ، لکھنے کے ادوار، مولانا نواب صدیق حسن خان صاحبؒ سے قلمی مناظرے اور نہ جانے تاریخ کے کتنے دروازے تھے جو وا ہوتے چلے گئے۔ ایک عجیب بات میں اس مجلس میں نوٹ کی جس کا تعجب آج تک ذہن پر نقش ہے وہ یہ تھی فرمایا ، مولانا عبدالحی صاحب ؒ اور نواب صاحب ؒ دونوں موضع’’ کو ٹھا‘‘کے مولانا سید عبدالطیف ؒ کے شاگرد رہ چکے تھے ۔ مولانا سید عبدالطیف ؒ حضرت سید امیر المعروف بہ حضرت جی کے فرزند ہے ۔ حضرت جی بابا امیر عزیمت سید احمد شہید ؒ کے معتمد خاص بزرگ گزرے ہیں ان کی سیر ت اور حیات پر صاحبزادہ اشرف صاحب کی ایک ضخیم کتاب بھی