ماہنامہ الحق مارچ اپریل مئی 2014ء |
امعہ دا |
|
کے بعد فرمایا! میں ابراہیم فانی عرض کررہا ہوں (یہ حضرت کے کلمات ہیں ) میرے پا س پہلے آپ کا نمبر بھی نہیں تھا اس لئے پہچانا بھی نہیں ، اور موبائل پر پہلی مرتبہ آپ ؒ کی آواز سنی۔مجھے انتہائی خوشی کے ساتھ ندامت بھی ہوئی اور حضرت کے اس صفت پر بہت حیرت بھی ہوئی آپ ؒ نے فرمایا کہ کتاب دیکھ کر بہت خوش ہوا۔ مزید فرمایا کہ مجھے ایک مسئلے کی ضرورت پڑی وہ مسئلہ آپ کی کتاب میں تفصیل سے دیکھ کر بہت خوشی ہوئی میں یہ کلمات حضرت کی زبان سے سن رہا تھا اور دل ہی دل میں اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کررہا تھا پھر فرمایا کہ آپ کی کتاب پر الحق میں ایک جاندار تبصرہ لکھ رہا ہوں لیکن قیمت کا اندازہ نہیں ہے کہ کتاب کی قیمت کیا ہے میں نے قیمت بتائی ، جب ’’الحق ‘‘ کے پرچے میں حضرت کے قلم سے تبصرہ پڑھا تو حقیقی خوشی ہوئی کہ استاد محترم نے ایک شاگر دکی کتاب پر تبصرہ لکھ کر کتنی حوصلہ افزائی فرمائی ہے ۔ مزید فرمایا کہ مجھے ایک نسخہ اور بھیج دو کیونکہ میرے پا س موجود نسخہ مجھ سے کوئی لے گیا ہے ۔ ایک دفعہ ملاقات کیلئے حاضر ہوا دارالعلوم حقانیہ کے امتحانات شروع تھے ۔ آپ امتحانی ہال میں مصروف تھے باتوں باتوں میں ایسے مفید مشوروں سے نوازا جو تصنیف وتالیف کے میدان میں مجھ جیسے طفل مکتب کیلئے مشعل راہ تھے میں اپنے محلہ کی جامع مسجد میں بیٹھا ہوا تھا ایک طالبعلم دوست نے آپ کی بیماری کے متعلق فرمایا ، لیکن یہ بات اتنی بھاری اس لئے نہیں لگی کہ پہلے سے آپ شوگر کے مریض تھے ۔ جب اکوڑہ خٹک جانا ہوا توآپکی جان لیوا اور مہلک بیماری کاسن کر بہت پریشان ہوا۔ دل میں یہ حسرت لئے پھرتا تھا کہ حضرت کی ملاقات کی کوئی صورت پیداہوجائے ۔یہ جمعۃ المبارک کا دن تھا آپ کے صاحبزادے اورہمارے مخدوم زادے جناب محمود ذکی سے فون پر رابطہ کیا ۔ اللہ تعالیٰ اُن کو عمر دراز نصیب فرماویں ، انہوں نے بشاشت اور فراح دلی کیساتھ ملاقات کی اجازت دی بلکہ وہ میرے آنے کا پیغام والد مرحوم کو بھی دے چکے تھے میں جب پہنچا تو محسوس ہوا کہ آپ انتظار فرمارہے تھے ۔ میری خوش قسمتی تھی کہ اُسی دن آپ کی طبیعت معمول سے زیادہ بہتر تھی ۔ اپنی ظریفانہ طبیعت کے مطابق بشاشت اور خندہ پیشانی سے حال واحوال پوچھتے رہے علم وتحقیق کے ساتھ وابستگی کا اندازہ آپ بآسانی اس سے لگاسکتے ہیں کہ حضرت نے پوچھا کہ علمی اور تحقیقی کام کررہے ہومیں نے بتایا کہ حضرت اپنی بساط کے ساتھ کچھ نہ کچھ کررہا ہوں اس سے خوش ہوکر دعا فرمائی ، اس کے بعد اکابرین دیوبند کا تذکرہ شروع کیا ، کچھ حضرت مولانا محمد یعقوب نانوتوی رحمہ اللہ کا واقعہ سنایا ۔ کیا اندازہ تھا کہ حضرت اقدس کے چہرہ انور پر یہی آخری نگاہیں پڑرہیں ہیں آپ سے اجازت لے لی ، آپ نے خوب دعا فرماکر رخصت فرمایا ؎ کل اس کی آنکھ نے کیا زندہ گفتگو کی تھی گمان تک نہ ہوا کہ وہ بچھڑنے والا ہے