ماہنامہ الحق مارچ اپریل مئی 2014ء |
امعہ دا |
|
آپ کے درس وتدریس میں اللہ تعالیٰ نے وہ مٹھاس او رچاشنی رکھی تھی کہ باید وشاید ، مشکل سے مشکل مقام کو چٹکیوں میں حل کیا کرتے تھے ۔انتہائی جامعیت اور اختصار کے ساتھ پورے مالھا اور ماعلیھا کے ساتھ سبق پڑھایا کرتے تھے ا س پر کمال یہ ہے کہ بعض مشکل کتابیں طلباء کو دومرتبہ پڑھایا کرتے تھے یعنی روزانہ کا سبق دومرتبہ دھراتے تھے ۔ بسااوقات موقع ومحل کے اعتبار سے ایسا مناسب شعر پیش کرتے تھے کہ پورا مجمع متوجہ ہوجاتا تھا ۔ آپ اپنی عمومی چال ڈھال میں سادگی کے قائل تھے یہ آپ کی کسر نفسی اور تواضع کی واضح دلیل تھی ۔ آپ انتہائی بے تکلف اورظریفانہ طبیعت کے مالک تھے لیکن باوجود ا س کے طلباء پر آپ کا ایسا رعب چھایا ہوتا کہ مجال ہے کہ کوئی بے ضرورت اور بے محل بات کرے اور اگر کبھی ایسا ہوتا تو آپ ؒ خوب ڈانٹ پلا کر اصلاح فرماتے ۔ اس بندہ عاجز پر اللہ تعالیٰ کے بے پناہ احسانات میں سے ایک یہ ہے کہ میرے اساتذہ کرام ہمیشہ میرے ساتھ انتہائی شفقت کا معاملہ فرمایا کرتے تھے ۔ حضرت فانی رحمہ اللہ مجھے نام سے پہچانتے اور پکاراکرتے تھے ۔ یوں تودارالعلوم حقانیہ میں قیام کے دوران حضرت ؒ سے کئی کتابیں پڑھیں لیکن درجہ تخصص کے سال کے دوران آپ ہمیں مسلم الثبوت اپنی رہائش گاہ میں بعدازظہر پڑھایا کرتے تھے ۔ اہل علم خوب واقف ہیں کہ مسلم الثبوت انتہائی مغلق اور مشکل کتاب ہے لیکن قدرت نے آپ کو فصاحت اور بلاغت کا عجیب ملکہ دیا تھا آپ بہت شیریں زبان تھے، خشک سے خشک مضمون بھی آپ انتہائی خوش اسلوبی سے بیان فرمایا کرتے تھے ۔ اصاغرنوازی اور شفقت میں آپ بے مثال انسان تھے ایک دفعہ میرے چھوٹے بھائی مولانا عبدالرحمن نے مجھے بتایا کہ حضرت فانی صاحب ؒ نے ناراضگی کااظہار کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ (فدامحمد ) مجھے اپنا کوئی تالیف نہیں بھیجتا ہے نہ تبصرہ کے لئے اور نہ ہی بطور تحفہ ، کیا میں اور کیا میری تالیف، میں خوب جانتا تھا کہ اس سے مقصود ہماری حوصلہ افزائی اور دلجوئی ہے مجھے خوشی بھی ہوئی اور ندامت بھی ہوئی ، اس کے بعد میں اہتمام سے آپ کے پاس اپنی کتاب بھیجا کرتاتھا آپ کے اس پیغام سے بڑی ہمت افزائی ہوئی ، ایک مرتبہ تقریظ کیلئے اپنی ایک کتاب بھیجی ، آپ نے ایسے فیاضی کے ساتھ تقریظ لکھ دی کہ ایک شاگرد کے لئے استاد کے قلم سے اس طرح کے کلمات اور الفاظ کے استعمال سے بڑھ کر اور کیا خوشی ہوگئی ، میں واضح طور پر سمجھتا تھا کہ یہ حضرت کی شفقت ہے اور ہماراحوصلہ بڑھانا چاہتے ہیں۔ ایک دفعہ میں دارالعلوم حقانیہ ملاقات کے لئے حاضر ہوا ۔ فاروقی کتب خانہ میں آپ سے ملاقات ہوئی حال واحوال پوچھنے کے بعد فرمایا ، سنا ہے کہ آپ شرح عقائد پر کچھ لکھ رہے ہیں؟ میں نے کہا کہ حضرت ارادہ تو ہے ۔ آپ بہت خوش ہوئے ، پھر وقتاًفوقتا ً پوچھ بھی لیا کرتے تھے ۔ کتاب مکمل ہونے کے بعد آپ کے پاس بھیجی ، آپ بہت خوش ہوئے۔قربان جاؤں حضرت کی اصاغر نوازی سے ، اے اللہ آپ میرے استاد کو اس مبارک صفت کے بدلے اپنے شایان شان درجات نصیب فرمادیں ۔ آمین ،رات کے تقریبا ۹بجے تھے فون آیا ، اٹھا کر سلام عرض کرنے